Saturday, December 6, 2014

ڈاکٹر سید منصور علی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ڈاکٹر سید منصور علی
احمد اویس
یہ آج سے گیارہ سال پہلے  کی بات ہے۔ بزم پیغام کے ایک پروگرام میں امور مربین کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے پہلا تعارف ہوا۔ سنا تو بہت تھا ان کے بارے میں لیکن ملاقات پہلی دفعہ ہونی تھی۔ کچھ کچھ حیرت تھی کہ بچوں کے اس پروگرام میں اتنے بڑے سکالر کا لیکچر رکھوا لیا ہے ،  کہیں سامعین  (جو سکول کے بچوں پر مشتمل تھی) کے لئے بوجھل نہ ہوجائے۔ خیر ٹیلی فون پر ہی وقت لیا۔ بہت محبت سے بات کی اور وقت طے ہوگیا۔  پروگرام کے دن دیگر کاموں کی مصروفیت کے دوران اچانک مجھے یاد آیا کہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے ، ڈاکٹر صاحب  سے دوبارہ یاد دہانی کی  تو بات ہی نہیں ہوئی ۔ میں دوڑا دوڑا   سڑک کے دوسری طرف ایک پی سی او   (پبلک کال آفس) پر گیا۔ ان کے گھر رابطہ کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ گھر پر تو نہیں ہیں۔ یکدم پریشانی نے گھیر لیا ، اب کیا کریں۔  پروگرام تو شروع ہونے والا ہے کیسے رابطہ کریں؟
 میں منہ لٹکائے واپس آگیا۔ صدر صاحب کو بتایا۔ انہوں نے تسلی دی کہ جب انہوں نے وقت دے دیا تھا تو اب وہ ضرور آئیں گے۔ اور ہوا بھی یہی کہ عین مقررہ وقت پر ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے اور حسب معمول ہمارے پروگرام کے شروع ہونے میں ابھی تاخیر تھی۔ چنانچہ اپنے معزز مہمان کو  مصروف رکھنے  کے لئے بھی مجھے ہی ذمہ داری ادا کرنا پڑی۔ علمی قابلیت کا رعب تو پہلے ہی تھا۔ اب ان کی طرف سے وقت کی پابندی اور ہماری جانب سے تاخیر نےمجھے مزید  شرمندگی کے بوجھ تلے دبا دیا۔ حالانکہ وہ خود درجہ کمال کی عاجزی و انکساری کا وصف رکھتے تھے اور انہوں نے ذرا بھی یہ محسوس نہیں کرایا کہ  انہیں اس تاخیر سے کتنی زحمت ہو رہی ہے۔ اسی طرح   ان کی مشفقانہ  طرز گفتگو نے قابلیت  کی دیوار ڈھا دی اور دوستانہ رویہ نے عمر کے فرق   کو  پاٹ دیا۔
اب عنوان تو یاد نہیں، لیکن انہوں نے اپنا لیکچر مکمل کیا۔ دوران لیکچر  بچوں نے پوری دلجمعی سے کان لگا کر سنا۔ ایک تو ان کا انداز ہی اتنا میٹھا اور دل کش تھا  دوسرا انہوں نے بچوں سے بالکل بچوں کی سطح  پر آکر بات کی۔ جس سے ہر کسی کی توجہ اور دلچسپی برقرار رہی۔  ہمارے پروگرام کے فورا بعد انہیں شاید سید مودودی انسٹی ٹیوٹ جانا تھا۔  اس لیے وہ فورا نکل گئے ۔ انہیں  مسجد کے دروازے  تک چھوڑنے میں اور میرے صدر صاحب آئے۔ صدر صاحب تو مجھ سے بھی زیادہ ان کے مداح تھے۔ ان کی جوتیاں خود اٹھا کر لائے اور سیدھی کر کے ان کے سامنے رکھیں۔
وقت گزرتا رہا۔ با رہا ان کے لیکچرز اور دروس سے استفادہ کیا۔ آخری دفعہ وہ ابھی پچھلے مہینہ  اجتماع عام سے پہلے ہمارے محلے کی مسجد میں اجتماع کی تیاریوں کے حوالے سے منعقدہ میٹنگ میں آئے۔  وہاں انہوں نے فرمایا کہ  باقی تیاریوں کے علاوہ، آپ تمام لوگ نفل نمازوں اور روزوں کا بھی اہتمام کریں۔  بلکہ  وہاں پر ا یک ذمہ دار نے بتایا کہ انہوں نے لاہور جماعت کے تمام ذمہ داران کو فون کر کے بھی یہی نصیحتیں کیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے اس اجتماع عام کو جو قبولیت بخشی ہے وہ انہی کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔

Thursday, April 10, 2014

کارکن کی شادی

کارکن کی شادی


ناظم کے قلم سے

شادی کے مقدمات تو کب سے پورے تھے، بس اس گھڑی کا انتظار تھا جوآسمان میں اس مبارک بندھن کے واسطے مقرر تھی۔ خدا خدا کر کے وہ دن آیا جب کارکن مٹھائی کا ڈبہ اور شادی کا کارڈ لیے میری طرف آیا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم اس کی دعوت ولیمہ مسنونہ میں شریک ہوئے۔ یہاں پہ یہ بتانا مفید ثابت ہو گا کہ کارکن سے ہماری شناسائی کو آنے والے مہینہ میں پورے ایک درجن سال ہو جائیں گے۔ ان بارہ سالوں نے زندگی پر ان گنت اثرات مرتب کیے۔ کچھ نمکین، چند کڑوے بہت سے میٹھے۔ آج شادی ہال میں کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے جب دلہا میاں سے پہلی ملاقات کا دل میں خیال آیا تو دماغ میں ایک فلم چل پڑی۔ ایک ایک کر کے وہ سارے سین آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے جب ناظم صرف ناظم تھا اور کارکن محض کارکن ہوا کرتا تھا۔

قصہ یہ ہوا کہ یہاں میری نارتھ سیکٹر سے ساؤتھ سیکٹر منتقلی ہوئی، وہیں کارکن نے شادباغ سے نیسپاک نقل مکانی کر لی۔ نیا نیا سیکٹر تخلیق ہوا تھا۔ تھوڑا سا کام تھا۔ افرادی قوت بہت ہی محدود تھی۔ ایک اندھیری رات کا ذکر ہے۔ میرے ساتھ ساؤتھ سیکٹر کے انچارج عاطف بھائی تھے جو اب خاصے بڑے پروفیسر صاحب ہو گئے ہیں اور ملائشیا پلٹ بھی ہیں۔ وہ مجھے سیکٹر کے آخری کونے میں لے کر گئے جہاں جا کر آبادی کا نام و نشان مٹنے لگتا تھا۔ سچی بات ہے کہ اگر ان کا ساتھ نہ ہوتا تو میں اکیلا کبھی اس طرف کا رخ بھی نہ کرتا۔ ویسے عاطف بھائی کو ہمیشہ میں نے بہادر ہی پایا ہے۔ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عاطف بھائی کچھ لالچی بھی تھے۔ اور لالچ یہ تھا کہ ایک عدد نوجوان جو بے حد صلاحیتوں کا مالک ہے نیا نیا ساؤتھ سیکٹر کی حدود میں داخل ہوا ہے۔ اس کو فوراً قابو کرنا ہے اس سے پہلے کہ ویسٹ سیکٹر والے، جہاں کے ایک مشہور سکول میں اس نے داخلہ لیا ہوا تھا، اسے لے اڑیں۔ خیر ایک تو گھر ڈھونڈنے کی دشواری کہ مکمل پتہ پاس نہ تھا اور دوسرا موبائل فون کا زمانہ نہ تھا کہ کوئی رابطہ ہو سکتا۔ کئی گھروں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بالآخر ہم رات گئے مطلوبہ نوجوان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ چھوٹی سی ملاقات ہوئی۔ اور آئیندہ ایک دوسرے سے ملتے رہنے کا وعدہ لے کر ہم اٹھ گئے۔

یہ ملاقات خاصی کامیاب رہی۔ کارکن باقاعدہ طور پر ہماری لسٹ (ربط) میں شامل ہو گیا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد اجتماع عام تھا۔ اس اجتماع میں خان صاحب نے جب خانساموں کے مدمقابل تندور کے ساتھ اپنا بوریا بستر لگا لیا تو انہیں ہمارے انچارج عاطف بھائی کی بھی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ عاطف بھائی ان کے ساتھ نتھی ہو گئے۔ اب عاطف بھائی کی جگہ ناظم کو ذمہ داریاں ادا کرنی پڑیں۔ ناظم خود چونکہ ابھی نیا نیا ناظم بنا تھا اور زیادہ کام سے گھبراتا تھا اس لیے اسے اچھے ساتھیوں کی تلاش ہوئی۔ ان میں ایک تو ویسٹ سیکٹر کے عثمان بھائی تھے اور دوسرا ہمارا کارکن، جس نے خود اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ کارکن نے بلا شبہ اس چھوٹی سی عمر میں اتنے بڑے بڑے کام کیے کہ سبھی عش عش کر اٹھے۔ اس کی ایک سے ایک بڑھ کر چھپی ہوئی صلاحیت آشکارا ہوئی کہ ناظم کا سارا اکیلا پن جاتا رہا۔

اجتماع عام کے بعد کارکن نے اپنا سکول تبدیل کر لیا اور گھر کے قریب ہی مزید تعلیم حاصل کرنے میں مگن ہو گیا۔ اس طرح ویسٹ سیکٹر کی لٹکتی ہوئی تلوار سے جان چھوٹی اور کارکن ہمہ وقت ساؤتھ سیکٹر کے کام کرنے لگ گیا۔ اس نے اپنے محلے میں کئی باصلاحیت اور ہنرمند افراد کو اپنے ساتھ ملایا۔ نئی اور تازہ کھیپ ہمارے ساتھ شامل ہوتی چلی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک مضبوط حلقہ قائم ہو گیا۔
میٹرک کے بعد کارکن کو ایف سی کالج میں داخلہ ملا۔ یہ اس کے داخل ہونے سے کچھ عرصہ پہلے ہی حکومت کے کنٹرول سے واپس چرچ کو دیا گیا تھا۔ چنانچہ اسے اس نئی انتظامیہ جن میں کئی غیر ملکی اور غیر مذہب کے لوگ تھے واسطہ پڑا۔ ان دنوں ناظم اسے ملنے کے لیے خاص کر ایف سی کالج جایا کرتا تھا۔ جہاں کے وسیع سبزہ زار میں بیٹھ کر یہ دونوں چائے پیا کرتے تھے۔

ویسے تو کارکن ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ ہر پروگرام، ہر جلسہ، ہر جھگڑا، جہاں بلاؤ پہنچ بھی جاتا تھا۔ لیکن ناظم کو اندازہ تھا کہ اندرونی احتسابی شکنجے سے پہلو تہی کرنا مشکل ہے۔ اس لیے جب کارکن کو رکن بنانے کا کٹھن مرحلہ درپیش ہوا تو ناظم کے لیے یہ بہت صبر آزما اور مشکل کام تھا۔ مہینوں سوچ و بچار میں لگائے کہ کیا ترکیب لڑائی جائے۔ ناظم کو اعتراف ہے کہ اس نے اس سلسلے میں کچھ تو کارکن کے پہلے سے استوار بیرونی تعلقات کو استعمال کیا اور دوسرا مقامی طور پر سفارت کاری کے تمام ممکنہ حر بے اختیار کیے۔ اس سب کے باوجود ابتدائی کوششیں رائیگاں گئیں۔ دوسری مرتبہ پھر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نہ کسی طرح رکنیت کی درخواست منظور ہوئی۔ لیکن ناظم کو ہر وقت ڈھرکا لگا رہتا تھا کہ اب کچھ ہوا کہ اب۔۔۔۔

کارکن نے انہی دنوں اسلامک یونی ورسٹی میں داخلہ کے لیے فارم بھجوادیئے۔ دل تو نہیں کرتا تھا کہ کارکن ایک دن کے لیے بھی نظروں سے اوجھل ہو مگر زمینی حقائق کچھ ایسے بن گئے تھے کہ ہر وقت نوخیز رکن کے پیچھے نادیدہ قوتیں ہاتھ دھو کر پڑی رہتی تھیں۔ جب کارکن نے ناظم سے اسلام آباد جانے کی اجازت مانگی تو دل پر پتھر رکھ کر اجازت دی۔ دماغ نے کہا کہ کارکن کی بھلائی اسی میں ہے کہ اسے کچھ عرصہ کے لئے منظر سے دور کردیا جائے۔

کارکن بیچارے پر کئی سخت وقت بھی آئے۔ سچ ہے کہ اس دنیا میں جو بھی آیا اس نے سختی کا مزہ تو چکھا ہی ہے۔ زندگی میں اگر فرض کرو کبھی ایسا وقت نا بھی آیا ہو تو موت کی سختی سے کس کو انکار ہے؟ ایسا ہی ایک مشکل مقام تب تھا جب اس نے ایک سہہ پہر کو مجھے مسلم ٹاؤن بلایا۔ وہ ان دنوں طالب علم تو اسلامک یونی ورسٹی کا تھا مگر کسی خاص کام کے سلسلے میں لاہور آیا ہوا تھا۔ ویسے تو کسی کی تکلیف میں ہنسنا بری بات ہے مگر اس وقت اس نے اپنی جو پریشانی بتائی اس پر ہم دونوں کافی دیر تک لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔ ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ یہ پریشانی اپنے جلو میں کس طوفان کو لیے آر ہی ہے۔

اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد کارکن واپس لاہور آگیا اور نئے سرے سے اپنے مستقبل کی تعمیر میں لگ گیا۔ اگلا سال واقعتاً بڑی مشکل کا تھا۔ لیکن جیسے تیسے کارکن نے وہ سال نکالا یہ اسی کا حوصلہ ہے۔ حوصلے جن کے بلند ہوں، راستے خود ان کے آگے آگے کھلتے جاتے ہیں۔ یہ قول کارکن کی اس یک سالہ جدوجہد پر صادق آتا ہے۔ بلآخر اسے یو ایم ٹی میں داخلہ مل گیا اور اپنی پسند کی فیلڈ یعنی سوشل سائنسز اور اس میں اس نے میڈیا میں مہارت کو منتخب کیا۔

یہاں سے اس کی زندگی نے کروٹ لی اور اچھی خاصی لے لی۔ سب سے پہلے تو عینک کا فریم چینج ہوا پھر ٹرانسپیرنٹ شیشوں کی جگہ رنگین شیشوں نے لے لی۔ اور پھر ساری دنیا ہی رنگین ہو گئی۔ مگر عینک کا نمبر جو پہلے دن تھا وہی رہا۔

ناظم ان دنوں بھی کبھی کبھار اسے ملنے یو ایم ٹی جایا کرتا تھا۔ گراؤنڈ میں بیٹھ کر چائے اور برگر بھی چلتے تھے۔ سورج چاند سب پہلے ہی کی طرح گردش کر رہے تھے، چاروں موسم اپنے وقت پہ آتے، صبح اسی طرح نمودار ہوتی اور شام اسی طرح ڈھلکتی لیکن بھر بھی زندگی میں کچھ کمی سی تھی۔ ناظم ناظم نہ رہا تھا اور کارکن کارکن نہ رہا تھا کہ دونوں کو نظم کا پاس تھا۔ برسوں کا رشتہ اپنی نوعیت کو تبدیل کر چکا تھا۔

خیر زمانہ کبھی ایک سا بھی نہیں رہا۔  ناظم کو جیسا کہ دستور دنیا ہے، فراغت سے پہلے ایک سال کے لیے مالیات کا انچارج بنایا گیا۔ اور انہی دنوں کارکن شہر کے میڈیا سیل کو سنبھالے ہوئے تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ وہ دونوں دوبارہ ایک چھت تلے اکھٹے ہوگئے ۔ روزانہ شام کو ملاقاتیں ہونے لگیں۔ زندگی میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں سما گئیں۔ ایک دن ناظم کو اپنے ٹیبل پر ایک خط ملا۔ کھول کر دیکھا تو وہ انچارج میڈیا سیل کی جانب سے کچھ فرمائیشیں تھیں جو انچارج بیت المال کو کی گئی تھیں۔ عام حالات میں کبھی اس طرح کی فارملیڑیز کی ضرورت نہ تھی بس یہ کارکن کی ان خاص اداؤں میں سے تھی جس کے آگے ناظم دل چھوڑے بیٹھتا تھا۔

ناظم کو یوں لگا کہ کارکن نے وہ سطریں میڈیا سیل کے لیٹر پیڈ پر نہیں، ناظم کے دل پر لکھ دی ہوں۔ زمان و مکان کی دوریاں بھی ان الفاظ کو دھندلا نہیں سکیں۔ کارکن آج بھی ناظم کے دل میں بستا ہے۔ بظاہر آج کارکن اور ناظم کے درمیان لاہور سے لے کر ڈی جی خان تک کا فاصلہ حائل ہے مگر دل میں رہنے والے تو کسی فاصلے پر نہیں ہوتے۔ خدا کرے کہ یہ چاہت ان دونوں کے درمیان اس وقت تک قائم رہے جب انسانوں کے اعمال کی میزان لگی ہو گی اور سورج سوا نیزے پر آگ برسا رہا ہوگا۔ کسی کو کسی کا ہوش نہ ہو گا۔ کہا جائے گا کہ دنیا میں جو لوگ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے وہ عرش کے سائے تلے آجائیں کہ اس روز اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔

Friday, February 14, 2014

ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں

ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں 


احمد اویس 
              ستیاناس ہو مغربی تہذیب کا۔ اچھے بھلے لفظ کو اختلاف کی بھینٹ چڑھا دیا۔ معاملہ صرف پھول بیچنے والوں کا ہوتا یا غباروں والوں کے روزگار کا۔ تو سبھی لوگ غریبوں کی ہمدردی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ کچھ ایسا ہی چند سال پہلے ہوا جب عدالت کی جانب سے پتنگ بازی پہ پابندی لگنے کے خلاف غریب لوگ مظاہرے کیا کرتے تھے کہ ہزاروں غریبوں کا چولہا اسی خونی کھیل سے وابستہ ہے، اب کیا کریں زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ہمارا کاروبار تو مت چھینو،،،، ہمارے بچے فاقوں مریں گے۔ یہ اور بات کہ پتنگ بازی سے ہونی والی اموات تو دیکھنے سننے کو مل جاتی ہیں مگر اس پر پابندی سے خدا کا شکر کسی کی جان نہیں گئی۔۔۔۔ 
         
             مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب نے نا صرف الفاظ کے لغوی معنی بدل دئیے ہیں بلکہ ظاہری طور پر ان کا مفہوم بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب یہی  محبت جیسا شیریں لفظ اب ذرا عام استعمال کر کے تو دیکھیں۔ فورا دائیں بائیں والے چوکنے ہو جائیں گے۔ اگر آپ کی ظاہر بین نگاہ زیادہ دور اندیش نہیں تو الٹا یہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ کہاں وہ وقت تھا کہ شعرا حضرات پند و نصائح کی بات اس کے  پیرائے میں بیان کرتے تھے کہ بات میں بوجھل پن نہ رہے۔ سبق آموز لوک داستانیں اسی کے گرد گھومتی تھیں۔ صوفیا کرام خدا کی ابدی اور سچی محبت کو سمجھانے کے لیے یہی مثالیں دیا کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے بھی کبھی کہا تھا کہ 
بھلا نبھے گی  تری ہم سے کیونکر اے واعظ 
کہ ہم تو  رسم  محبت کو  عام  کرتے   ہیں 

              ویسے کچھ نڈر اور بے باک قسم کے لوگ تو محبت کا لفظ بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی کر لیتے ہیں۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر۔ ان کے نزدیک سچ تو یہ ہے کہ محبت کرنی تو ڈرنا کیسا۔۔۔ انہی لوگوں کے دم سے دنیا کی رنگینی برقرار ہے اور غریبوں کا چولہا جل رہا ہے۔  ایک دفعہ کسی رشتہ دار کا حج سے واپسی پر صبح کے وقت استقبال کرنے ایرپورٹ جا رہا تھا تو باوجود کوشش کے کوئی پھول والا نہیں ملا۔ آج جس وقت گوالے دودھ لے کر شہر پہنچتے ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ  پھولوں کی دکانیں سجی ہوئی ہیں۔ مزرع شب کے خوشہ چینوں کے لئے شاید ساری رات ہی  کھلی رہی ہوں۔۔۔ 
ادھر سرحد پار سے خبر آئی کہ بال ٹھاکرے کی تنظیم نے اس مغربی تہوار کے خلاف ملک بھر میں جگہ جگہ مظاہرے کیے۔ محبت کی علامتوں کو سر عام نذر آتش کیا گیا۔ کئی جگہوں پر ان کے کارکنوں نے اسیران محبت کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر  ڈنڈوں سے تواضع کے علاوہ ایک دوسرے سے کان بھی کھینچوائے۔ زبردستی پھولوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کر کے قیمتی پھول ضائع کر دئیے۔  ان کا موقف تھا کہ یہ انڈین کلچر  اور خاندانی نظام کے خلاف ہے۔ ممکن ہے کہ اس جسارت پر فوج ان کے مضبوط ٹھکانے ممبئی پر بمباری ہی کر دے۔  
                جب ہمارے اوپر الزام دھرا جاتا ہے کہ یہ تو ہیں ہی محبت کے دشمن۔۔۔ ہم فورا اپنا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نہیں نہیں ہم محبت کے دشمن  نہیں بلکہ ہمارے نزدیک محبت سارا سال کرنی چاہیے نہ کہ صرف ایک دن۔ بھلا یہ کیسی محبت ہے کہ جو بس ایک دن میں ہی ہو کر ختم ہو جاتی ہو۔۔۔ لو جی پھر اور کیا چاہیے۔۔۔ آپ سے تو ایک دن محبت کا برداشت نہیں ہوتا۔ سارا سال کیسے برداشت کریں گے؟؟ 

                ارے نہیں جناب آپ ہی تو غلط سمجھے ہیں۔ ہم سے زیادہ محبت کا پرچار کرنے والا کون ہے۔ ہم تو سچی محبت کا درس دیتے ہیں۔ وہ محبت جو ایک بیٹا اپنی ماں سے کرتا ہے۔ جو بہن بھائیوں میں ہوتی ہے۔ جو ایک خاندان کو جوڑ کر رکھتی ہے۔ جو دوستی کے رشتہ کی مٹھاس بڑھاتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر انسان کو اس کے محبوب رب سے آشنا کرتی ہے۔ بلکہ اگر یہ محبت نہ ہو تو  
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے 
مسلمان نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے