Saturday, July 21, 2012

شعبان سے رمضان تک----ایک احساس


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شعبان سے رمضان تک۔۔۔۔۔۔ایک احساس
احمد اویس
شعبان کی آخری رات ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ میری زندگی میں یہ مبارک لمحہ کتنی بار آیا ہے اور ہر دفعہ رمضان کی ان گنت رحمتیں اور برکتیں میرے اوپر نچھاور کرتا ہوا یہ وقت پھر چلا جاتا ہے۔ ہر سال کا رمضان میرا آخری رمضان ہوتا ہے جو میں اپنے پیارے رب کی نا فرمانیاں کرتے ہوئے گزارتا ہوں۔ میں اپنے گذشتہ  گناہوں سے معافی مانگتا ہوں۔ آئندہ کے لئے پختہ عہد کرتا ہوں کہ اب کوئی لمحہ بھی خدا کی نافرمانی میں نہیں گزاروں گا۔  وہ رت جگے، وہ خدا کے گھر سے تعلق، وہ سجدوں میں آنسوؤں سے جائے نماز کا بھیگنا، وہ راتوں میں کھڑے ہونا،دن میں اللہ کی پاک کتاب کا پڑھنا، وہ ایثار و قربانی، صدقہ خیرات،  ہمدردی اور غم خواری عید کا چاند نظر آتے ہی ایسے گم ہو جاتے ہیں کہ پھر اگلے سال تک ان کا  نام و نشان ڈھونڈے سے بھی  نہیں ملتا۔
میری سوچ الجھ کر رہ جاتی ہے۔۔۔۔
مجھے اپنی ساری عبادتیں  اور ریاضتیں مٹی میں ملتی نظر آتی ہیں۔ آخر اللہ میاں کو میرے ان روزوں اور سجدوں سے کیا ملتا ہے جو وہ ہر سال میرے لئے یہ اہتمام کرتے ہیں؟ کیا واقعی اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ میں بھوکا پیاسا رہوں ؟ ایک مدت کے لئے نیک اور پارسا بن کر رہوں؟  کچھ مال خرچ کر کے یہ سمجھوں کہ یہ پیسے جس طرح بھی اور جس ذریعے سے بھی کمائے ہیں وہ اب حلال ہو گئے ہیں؟ کیا واقعی جھوٹ بولنے سے میرا روزہ ضائع ہو جاتا ہے؟ اور افطار کے بعد جتنا مرضی جھوٹ بولو  ٹھیک ہوتا ہے؟  نمازوں کی پابندی میں باقی سال میں کیوں نہیں کرپاتا؟ یہ جو کہا جاتا ہے کہ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے تو کیا اس رات کو عبادت کر کے میرے ہزار مہینوں کے  گناہ معاف ہو جاتے ہیں؟ میری وہ سب نمازیں جو میرے ذمہ ہیں وہ ادا ہو جاتی ہیں؟
میری سوچ مزید الجھ کر رہ جاتی ہے۔۔۔۔
رمضان کے آتے ہی میں اتنا نرم خو اور ہمدرد بن جاتاہوں۔ہر کسی سے میرا تعلق یک دم اچھا ہو جاتا ہے۔ میرے ملازم مجھ سے خوش ہوجاتے ہیں  ۔تو بڑے مجھے ایک اچھا انسان سمجھنے لگتے ہیں۔ میرے ساتھ رہنے والے لوگ تو سوچتے ہوں گے  کہ کاش میرے اوپر ہر وقت ہی رمضان کی کیفیت طاری رہے۔ بھاگ بھاگ کر امی جان کے کام کرنا، دوستوں کی افطاریاں کرانا، غریبوں کو ان کا حق ادا کرنا، رشتہ دار اور ہمسایوں کے گھروں میں مزے مزے کی چیزیں بھیجنا اور راہ چلتے مسافروں کوکھجور کا تحفہ دے کرٗ ایک گلاس شربت پلا کر، ان کے گھروں تک پہنچنے سے پہلے روزہ افطار کرا کے ڈھیروں دعائیں لینا۔ یہ سب مجھے اچھا لگتا ہے لیکن رمضان کے ختم ہوتے ہی میں ایک دوسرا شخص بن جاتاہوں۔
میری سوچ کچھ مزید الجھ کر رہ جاتی ہے۔۔۔۔
مجھےیوں لگتا ہے کہ شاید میں اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے تو یقیناََ رمضان کا مہینہ مجھے بھوکا پیاسا رکھنے کے لئے نہیں بنایا۔ مجھے لگتا ہے کہ میں جو نیک کام کرتا ہوں ان کا اثر میرے اندر کے انسان  پر نہیں پڑتا۔ مجھے خطرہ ہے کہ یہ عبادت  کا ناقص مفہوم ہے۔ مجھے اللہ میاں سے جس  تعلق کادعویٰ ہے وہ ابھی خام ہے۔ میں اپنے پیارے نبی ﷺ  کو دل و جان سے مانتا تو ہوں مگر ابھی میرے میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ  ان کےکہے کے مطابق اپنی زندگی گزار سکوں۔ صحابہ کرام  رضوان اللہ علیھم اجمعین کو میں اپنا رہنما تو مانتا ہوں مگر  ان کی طرح اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔ قرآن پڑھنے  اور سننے سے مجھے سکون تو ملتا ہے مگر اس کو سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کا تو ابھی وقت نہیں آیا۔ میں مانتا ہوں کہ نماز مجھےجنت تک پہنچانے کاسبب بنےگی لیکن وہ نماز مجھے پڑھنے کی فرصت ہی کہاں ہے۔
میری سوچ کی گرہیں کھلنا شروع ہوتی ہیں۔۔۔۔
میں سوچتا ہوں کہ میں نے محض کھانے پینے سے رک جانے کو ہی عبادت سمجھ لیا تھا۔ شاید میں یہ سمجھا تھا کہ  رات کو کھڑے ہوکر قرآن کو سننا ہی اصل عبادت ہے۔ مگر اب مجھ پر یہ آشکار ہو رہا ہے کہ  یہ تو وہ ظاہری شکل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کو پانے کے لئے مقرر کیا ہے۔ محبوب کی محبت کو پانے کے لئے لپک لپک کر آگے بڑھ کر اس کی پسند کے کام کرنے اور اس کی ناپسندیدہ باتوں سے رکنے کے لئے یہ سب اہتمام کیا گیا ہے  ۔یہ تو اس بات کی علامت تھی کہ میرے اندر اللہ تعالیٰ کا اتنا خوف ہو کہ جس چیز میں مجھے فائدہ دکھائی دے مگر اس کو کرنے سے  میرے اللہ نے مجھے روکا ہو تو میں اس سے ہر صورت میں رک جاؤ۔
میری سوچ کی مزید گرہیں کھلنا شروع ہوتی ہیں۔۔۔۔
  یہ حقیقت مجھ پر عیاں ہوتی ہے  کہ رمضان ایک ایسی مشق کا دورانیہ ہےٗ جس میں مجھے  یہ تربیت دی جاتی ہے کہ  اللہ تعالیٰ کی خوشنودی  کے لئے اپنے اندر اتنی طاقت پیدا کروں کہ میری اپنی نفسانی خواہشات  بھی مجھے دبا نہ سکیں۔میں اتنا طاقتور ہو جاؤ کہ  دنیا بھر کی طاقتیں اکھٹی ہو جائیں مگر مجھے ایک قدم بھی ڈگمگا نہ سکیں۔ میں ہر طرح کا نقصان اورخطرہ جھیل لوں لیکن اپنے رب کی نا فرمانی نہ کروں۔ میرے اندر اتنی روحانی طاقت آ جائے کہ میرے دل و دماغ ، میری نیت اور ارادہ میرا خیال اور عمل سب کے سب ایک اللہ کی بندگی میں جھک جائیں۔ میرے اندر اس مشق کا اتنا فائدہ ہو کہ رمضان کے بعد بھی میرے اندر سے جھوٹ اور غیبت کی عادت ختم ہو جائے۔ بات بات پر لڑائی اور جھگڑا نہ کروں۔ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھوں۔ اپنی زبان اور اپنے کردار سے کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچاؤں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی اب میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ  یہ تب ہی ہو گا کہ  جب  میں روزہ کو اس کی اصل غرض اور مقصد کو پیش نظر رکھ کر رکھوں گا۔
میری سوچ کی کچھ مزید گرہیں کھلنا شروع ہوتی ہیں۔۔۔۔
مجھے پیارے نبی ﷺ کی وہ حدیث سمجھ میں آ گئی ہے کہ  جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ: بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ روزے سے بھوک پیاس کے سوا اُن کے پلے کچھ نہیں پڑتا اور بہت سے راتوں کو کھڑے ہونے والے ایسے ہیں کہ اس قیام سے رت جگے کے سوا اُن کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ مجھے یہ بات سمجھ آئی ہے کہ محض بھوکا پیاسا رہنا اصل عبادت نہیں ہے بلکہ اصل عبادت کا ذریعہ ہے اور اصل عبادت یہ ہے کہ خوف خدا کی وجہ سے خدا کے قانون کی خلاف ورزی نہ ہو اور محبت الہٰی کی بنا پر ہر اس کام کے لئے شوق سے لپکے جانا، جس میں محبوب کی خوشنودی ہو ۔اب میں سمجھ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں روزوں کا حکم دیا وہاں یہ بھی فرمایا کہ شاید کہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا اپنا ارادہ ،سمجھ بوجھ اور کوشش  اسے اس اصل مقصد کی طرف لے جائے گا۔ ورنہ اگر اصل مقصد پیش نظر نہ ہو تو محض روزہ  پوری طرح فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔
حضور اکرم ﷺ کا ایک فرمان  ہمیشہ میرے پیش نظر رہتا ہے کہ جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور فرمان مجھے ہر وقت یہ احساس دلاتا ہے کہ  جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اپنی بخشش نہ کرا لی تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ اللہ کریم کا بے پایاں احسان ہے کہ ہمارے اوپر یہ مبارک مہینہ سایہ فگن ہے۔جو مودت، بھائی چارہ، صبر اور غمخواری کا مہینہ ہے۔ جس میں رحمت ہے، جس میں مغفرت ہے، جس میں جہنم کی آگ سے رہائی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم اس رمضان کو  صحیح اہتمام سے گزاریں تاکہ یہ رمضان ہماری زندگیوں میں ایک مثبت اور خوشگوارتبدیلی  لانے والا ثابت ہو۔ آمین۔