Monday, September 17, 2012

توہین آمیز فلم----احمد اویس (سچ ٹی وی)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

توہین آمیز فلم
احمد اویس
اور اب ایک مزید فلم اسلام کے خلاف تیار کر لی گئی ہے۔ نجانے ان لوگوں پر کیا بھوت سوار ہے کہ پے در پے توہین اسلام کرتے چلے جا رہے ہیں۔ہر دفعہ پہلے سے زیادہ شدید ردعمل سامنے آمنے کے باوجود ان کے کلیجوں میں لگی تعصب کی آگ  کسی طرح ٹھنڈی ہونے میں ہی نہیں آرہی۔ اور تو اور یہ کوئی ایک دو افراد یا کسی انتہا پسند تنظیم کی کارستانی نہیں بلکہ جسے بھی دیکھو  ایک نئے طریقے سے اسلام جیسے مذہب پر کیچڑ اُچھالنا شروع کر دیتا ہے۔ ان کا سارا نظام بشمول ان کی حکومت  اس شیطانی کارستانی پر خاموش مجرم کا کردار ادا کرتی ہے۔
ایک مسلمان چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو، وہ کتنا ہی بے عمل اور گناہ گار ہو، کتنا ہی روشن خیال اور ترقی پسند ہو جائے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے دل سے نہیں نکلتی۔ وہ ساری چیزیں برداشت کر لیتا ہے مگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو خطرے میں نہیں دیکھ سکتا۔ اب کی بار بھی یہی ہوا کہ ہر طبقہ فکر سے اس شرارت کے خلاف آواز بلند ہوئی ہے۔ تمام لوگوں نے چاہے وہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں یا کوئی بھی سیاسی وابستگی اپنائے ہوئے ہوں، اپنے اپنے دائرے میں موثر احتجاج کیا۔ حکومتی سطح پر بھی ایسی ویب سائٹس کو بلاک کرنا اور  سفارتی احتجاج قابل تحسین ہیں۔  اس کے ساتھ ساتھ ہی  پر تشدد احتجاج کی مذمت بھی ضروری ہے۔
  اس دفعہ جہاں پورا عالم اسلام ہی اس ملعون حرکت کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے وہیں مصر ان سب میں پیش پیش ہے۔ایک طرف تو یہ وہاں کی حکومت کے لیے امتحان ہے کہ کیسے وہ اپنے  شہریوں کی توقعات پر پورا اترتی ہے وہیں دوسری طرف مغربی میڈیا اور ان کی حکومتیں اس سے فائدہ اٹھا کر مصر کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا کرنے کی تیاریوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے ایک بات ہے اگر مصر مغرب کے دباؤ کے باوجود اپنے موقف پر صحیح طور پر جما رہے تو وہ عالم اسلام کی ایک متفقہ قیادت کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔ پاکستان نے جب سے اپنی یہ پوزیشن چھوڑی ہے تو عام طور سے عالم اسلام ترکی اور مصر ہی کی طرف دیکھتا ہے کہ شاید وہاں سے کوئی امید کی کرن نظر آجائے۔ اور اکثر و بیشتر وہ مایوس بھی نہیں کرتے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ فلم بنانے والوں پر اس احتجاج کا کوئی اثر ہو اور وہ  اس کا نوٹس لیں، دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کرنے پر معافی مانگیں۔ ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی جائے۔ آیندہ ایسے واقعات نہ دہرائے جانے کے متعلق کوئی قانونی اور عدالتی فیصلہ سامنے لایا جائے۔ مگر پہلے کی طرح اب بھی کوئی مثبت رویہ سامنے آنے کی بجائے امریکا بہادر کبھی تو کہتا ہے کہ اس میں ہم شریک نہیں ہیں، ہم لاعلم تھے کہ اس میں کوئی توہین اسلام کا پہلو بھی نکل آئے گا۔ اور کبھی اپنے سفیر کا نقصان کر کے یہ کہتا ہے کہ امریکیوں کی جان بچانے کے لیے تمام وسائل برئے کار لائے جائیں گے۔ گویا امریکا کے علاوہ اور کسی کو اپنی آزاد مرضی سے یہاں سانس لینے کا حق ہی نہیں۔ ان کے لوگ جو کچھ چاہیں کرتے رہیں کوئی روکنے والا نہیں ہونا چاہیے۔
دیکھنا چاہیے کہ آخر ہم میں کیا خرابی ہے کہ  ایک واقعہ کے بعد ایک اور واقعہ سر اٹھا کر چلا آتا ہے۔ مسلم حکمرانوں کی تو خیر بات ہی کیا۔ عام عوام بھی اسلام کی حقیقی تعلیمات سے اتنا دور ہو چکے ہیں کہ بنیادی عقائد تک سے کوئی سروکار نہیں۔ جو لوگ مذہبی سمجھے جاتے ہیں ان کے کردار بھی کوئی اتنے اچھے نہیں ہیں کہ مثال کے طور پر پیش کیے جا سکیں۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والا توہین رسالت  کیس میں بھی اب تک کی جو معلومات آئی ہیں ان میں ہمارے معاشرے کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ ہم نے اپنی قیادت ، چاہے وہ محلہ کی سطح کی ہو یا ملکی سطح کی، کے منصب پر فائز ان لوگوں کو کر دیا ہے جو کسی طرح بھی اس کے لائق نہیں ہیں۔ آئے روز ان کی وجہ سے ملک کی بدنامی ہوتی رہتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یورپ اور امریکا کے غلط اقدامات کے خلاف احتجاج ضرور کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ہی اپنے اندر کی برائیوں کے خلاف بھی کسی جدوجہد  کو لازم قرار دیں ۔ اخلاقی تعلیم کو عام کیا جائے۔ اس زندگی کو سوچ سمجھ کر اور ذمہ داری کے ساتھ گزارا جائے۔ اپنی اناکے خول سے نکلا جائے۔ خدا کی نافرمانی سے بچا جائے اور صرف نبی کریم صلہ اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطراحتجاج کے علاوہ ان کی پیاری اور سچی تعلیمات پر عمل بھی کیا جائے۔ جب تک یہ اندرونی طور پر صفائی کا اہتمام نہیں ہوتا تو مغرب سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ ہمارے احتجاج کے نتیجے میں ان مذموم حرکتوں سے باز آجائیں گے۔
This is an exclusive piece for saach.tv

http://www.saach.tv/2012/09/17/toheen-ameez-film/