Monday, October 1, 2012

مسافران شوق سے چند باتیں---حج (سچ ٹی وی).


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مسافر ان ِشوق سے چند باتیں
احمد اویس
حج پر جانے کا شوق کسے نہیں ہوتا۔ سبز گنبد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ ساری ساری عمر تنکا تنکا جوڑ کر  زاد راہ اکھٹا کرتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہی ہیں جو اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات تک کو قربان کر کے اس عظیم سفر میں جاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ ابھی تو بیٹی کو رخصت کرنے کا سامان بھی میسر نہیں  ہے، ابھی تو کرایہ کے مکان سے چھٹکارا بھی نہیں ملا۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ  دربدر کی ٹھوکریں کھاتے بڑھاپا آگیا ہے مگر ابھی تو کوئی جمع پونجی نہیں ہے جو اس عمر میں ہمارے یا ہمارے بچوں کے کام آئے گی۔ میری زندگی کی شاید تھوڑی سی مدت رہ گئی ہے  بس ایک ہی خواہش ہے کہ کسی طرح  اپنی ان اندھی ہوتی  آنکھوں سے اللہ جی کا گھر دیکھ لوں۔ پیارے نبی جی صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک کا دیدار کر لوں۔ مجھ سے چلنے پھرنے کی نعمت چھینی جا رہی ہے بس کسی طرح اپنے سب سے بڑےمحبوب کے در کا ایک طواف کر لوں۔ساری عمر گناہ کرتے کرتے گزار دی۔ اب بہت شرمندہ ہوں۔ چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے اس رب کریم کی خوشنودی کے لیے حج کر لوں، اس ذات سے تو پوری امید ہے کہ حج کے بعد میں ایسے ہو جاؤں گا کہ جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے نکلا ہوں۔
ہم سب گواہ ہیں کہ صرف شوق ہی ایک ایسا اثاثہ ہے جو اس سفر پر جانے کے لیے درکار ہے۔ آپ کی آنکھیں اپنے پیاروں کو  نہ دیکھ سکتی ہوں۔ آپ اپنے پیروں پر چل کر محلّہ کی مسجد تک نہ جا سکتے ہوں۔ شوگر آپ کے کنٹرول سے باہر ہو۔ ہائی بلڈ پریشر سے آپ کی زندگی اجیرن ہو گئی ہو۔ کمر سیدھی کر کے آپ کھڑے نہ ہو سکتے ہوں۔ دل کے والو بند ہوں ۔ جوڑ جوڑ دکھتا ہو۔ اس گھر کی برکت سے سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ پرانے پرانے مرض یوں ختم ہوتے ہیں جیسے سرے سے ان کا وجود  ہی نہ ہو۔ ورنہ ایسے بد نصیب بھی ہیں کہ  جو سب کچھ ہوتے ہوئے  بھی حج کی سعادت سے محروم رہتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ حج کا سفر آسان بہرحال نہیں ہے۔ اس کے لیے پہلےتو ایک اچھی خاصی رقم درکار ہے ۔ ہمارے ملک کی اکثریت آبادی اپنی عمرکے آخری حصے میں حج کے لیے اس لیے بھی نکلتے ہیں کہ عمر بھر ان کے پاس اتنی رقم جمع ہی نہیں ہو پاتی کہ وہ اپنے شوق اور فرض کی تکمیل کر سکیں۔ پھر جسمانی صحت اور قوت  کا بھی خاصا امتحان ہوتا ہے۔ انسان کی طبیعت اور رویہ کی آزمائش ہوتی ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کی اوپر سے ملمع کاری کی تہہ اتر کر ان کا اصل چہرا سامنے آجاتا ہے۔بندہ مومن کے ایمان اور محبت کا تو ہر وقت  پتہ چلتا رہتا ہے۔ صبر اور برداشت ہر لمحہ مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں۔ گھر کی سہولیات اور بچوں کی یاد بھی دامن پکڑنے  آجاتی ہیں۔ ایسے میں ایک حاجی سے بہت سی ایسی باتیں ہو جاتیں ہیں جو کہ نہیں ہونی چاہیں تھیں۔
سب سے زیادہ تو ایک حاجی سے جس چیز کی اُمید کی جاتی ہے اور سب سے زیادہ جس چیز میں کوتاہی ہوتی ہے وہ نظم و ضبط کا نہ ہونا ہے۔ ویسے تو ہمارا دین ہمیں نظم و ضبط کی ہر جگہ تلقین کرتا ہے۔ نماز باجماعت اس لیے پڑھائی جاتی ہے تا کہ عام زندگی میں مل جل کر اُٹھنا بیٹھنا آجائے۔ رمضان کے روزے ساری دنیا میں اکھٹے رکھے جاتے ہیں ۔ اسی طرح حج جیسے  بڑے  اجتماع میں اگر نظم و ضبط میں جھول رہ جائے تو بڑے بڑے حادثات کا خطرہ ہوتا ہے اور دوسروں کو تکلیف دے کر اپنی نیکیوں کو گناہوں میں تبدیل کرناتو  یقیناً عقل مندی کا تقاضا نہیں ہے۔ آپ گھر سے کافی پہلے نکلتے ہیں تو حاجی کیمپ میں انتظار کے صبر آزما لمحات سے گزرنا پڑتا ہے۔ فلائٹس کا تاخیر سے آنا، رہائش کے مناسب انتظامات نہ ہونا، ٹرانسپورٹ  اور ہجوم کی مشکلات ان سب کو اگر انفرادی طور پر منتظمین کی ہدایات کے مطابق ترتیب دیا جائے تو اپنی  اور اپنے ساتھ والے حاجی صاحبان کے لیےبھی  خاصی آسانی کا سبب بن سکتا ہے۔
حج کی تیاری اور اس کے مسائل سیکھنے کی طرف بالعموم ہمارے دیہاتی  پس منظر والے حجاج کرام کی توجہ نہیں ہوتی۔ بہت تکلیف  دہ بات ہے کہ اتنی آرزؤں اور زندگی بھر کی کمائی خرچ کرنے کے بعد یہ با برکت سفر کیا جائے اور پھر بھی اس  سے فائدہ اٹھانے کی بجائے نقصان کرا بیٹھیں۔ جی ہاں، جب لوگوں سے غلطیوں پہ غلطیاں ہوتی ہیں تو  دم پہ دم پڑتا ہے جس سے حاجی صاحب کا اپنا بھی دم نکل جاتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جب سے آپ نے ارادہ کیا ہے تب سے ہی اس کی تیاری بھی شروع کر دیں۔ اگر کسی ایسے ساتھی کا بندوبست ہو سکے جس کو ساری تفصیل کا علم ہو تو اس کے ساتھ ساتھ رہنے کی کوشش کریں۔ گروپ میں موجود کوئی عالم دین ہوں تو وہ یہ خدمت اچھے طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں۔ ہمارے نجی میڈیا چینلز کو بھی چاہئے کہ اتنے اہم مسئلے میں لوگوں کی رہنمائی کریں۔
ایک اور بات فقہی اختلافات کے متعلق بھی سمجھنی چاہئے۔ جو اس قسم کے اختلافات ہوتے ہیں ان پر خوامخواہ کسی ایک طریقہ پر اصرار کرنا اور دوسرے کو غلط کہنا فساد کی جڑ ہے۔ جس سے شیطان جو پہلے ہی  حاجی سے خائف ہوتا ہے اس کو موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ آپ کا حج خراب کرے۔ بنیادی بات تو یہی ہے کہ "اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور دوسرے کا مسلک چھیڑو نہیں"۔منیٰ میں اور عرفات میں ان خرافات میں پڑ کر آپ کسی امام کی حمایت نہیں بڑھا رہے ہوتے بلکہ اپنے حج کا ثواب ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔سعودی حکومت اور علما کو بھی چاہیے کہ وہ اس ضمن میں اگر اتفاق رائے ہو سکے تو کر لیں ورنہ کم از کم اتنا تو کریں کہ اپنے متعین کردہ رہنماؤں کو دوسرے مسلکوں کی تعلیم بھی دیں تا کہ  وہ لوگوں سے اُلجھنے کی بجائے ان کی مدد کرنے والے بنیں۔ پھر کچھ ایسی آسانیاں بھی سعودی علما نے اجتہاد کے ذریعے حجاج کرام کے لیے نکالی ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے حج کو آسان بنایا گیا۔ مگر مشکل یہی آتی ہے کہ دیگر ممالک سے آئے ہوئے حجاج کو ان کے مقامی علما نے سختی سے ایسی چیزوں کی پیروی سے روکا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر رمی کے اوقات کو دن اور رات پر محیط کرنا   اور احرام اتارنے کے بعد قربانی  کرنے کو سعودی بالکل ٹھیک  سمجھتے ہیں۔ انتظامی اعتبار سے قریب قریب یہ ناممکن بھی ہے کہ سبھی لوگ  مغرب سے پہلے پہلے رمی کر لیں اوریہ بھی مشکل ہے کہ  سب کی قربانی صبح صبح ہی ہو جائے اور  حاجی اطمینان سے احرام اُتار کر دیگر فرائض سر انجام دے سکے۔ اس سلسلے میں دیگر ممالک کے علما سے مشاورت کر کے انہیں بھی اس بات پر آمادہ کرنا چاہئے۔
صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔ مگر آپ سوچ سکتے ہیں کہ دنیا بھر کے چنیدہ  مسلمانوں کے اجتماع میں  صفائی کی کیا حالت ہو گی۔ ویسے تو اگر اتنا بڑا مجمع خدا کے منکروں کا بھی ہو تب بھی صفائی ایک مسئلہ ہو گا ہی،مگر مسلمانوں کو بہرحال بہتر رویہ اختیار کرنا چاہے۔ منیٰ میں اگر ہر فرد اپنی ذمہ داری سے ہر طرح کا کوڑا کرکٹ  مقررہ جگہ پر ڈال دے تو کافی بہتر ماحول نظر آسکتا ہے۔ اسی طرح کھانسی زکام تو وہاں کی عام بیماری ہے۔ مگر جگہ جگہ تھوکنے کو اگر روکا جا سکے تو  ہم اپنے نصف ایمان کی حفاظت بہتر انداز میں کر سکیں گے۔
لڑائی جھگڑا تو آپ کے کریم رب کو اتنا ناپسند ہے کہ خاص طور پر قرآن مجید میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ اور عام تجربہ ہے کہ یہ ایک حاجی کا سب سے نازک پہلو ہوتاہے۔ گھر سے دور رہنا اچھا خاصا مجاہدہ ہے۔ اور پھر اتنا سارا رش اور ہجوم  اوپر سے کوئی بیماری آجائے یا ویسے ہی قوت ارادی میں  ضعف ہو تو بھلے سے بھلا انسان بھی چڑچڑا ہوجاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں ہر وقت یاد رکھنی چاہیے اور اپنے ساتھیوں کو بھی یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ جیسے ہی آپ نے کوئی ایسی ویسی بات کی جو ربّ کو ناراض کرنے کا باعث ہو سکتی ہو تو آپ کا قبول ہوا ہوا حج ٹھکرایا جا سکتا ہے۔
حج ختم ہونے کے بعد کچھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ  بس جی اب ہمارے گناہوں کا میڑ دوبارہ زیرو سے شروع ہو گیا ہے۔ چنانچہ وہ کچھ اتنا خیال نہیں رکھ پاتے جتنا حج سے پہلے رکھتے تھے۔  ہماری خواتین اپنے نامناسب پردے کی وجہ سے پہلے ہی قوم کے لیے شرمندگی کا باعث بنی ہوتی ہیں۔ حج ختم ہونے کے بعد عبایا تو اتر ہی جاتے ہیں۔ حج ٹرمینل پر دوپٹے بھی  گلوں میں آجاتے ہیں ۔ اور اپنے ملک پہنچ کر  ابھی ائر پورٹ سے باہر نہیں نکلتے کہ گالیوں کا تبادلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر معاملات میں بھی ہوتا ہے۔کچھ حاجی صاحبان سعودیہ سے کافی زیادہ خریداری کرتے ہیں اور نتیجہ میں انہیں ائر پورٹ پر اضافی رقم دینی پڑتی ہے۔ یہاں پر ائرپورٹ کا عملہ آپ کے ایمان اور امانت کا امتحان لینے کے لیے موجود ہوتا ہے۔ دھیان رکھنا چاہئے کہ کوئی اور دیکھے نہ دیکھے اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ حج کے موقعہ پر جو آپ نے اپنے رب سے تجدید عہد کیا تھا اسے ساری عمر یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہ دعا بھی ضرور کرنی چاہئے کہ حج کے ثمرات اور اس کی برکتیں دونوں جہاں میں ہمارے ساتھ ساتھ رہیں۔
This is an exclusive piece for saach.tv