Friday, May 10, 2013

پاکستان دشمنی ایوارڈ----معارف فیچر


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پاکستان دشمنی ایوارڈ
احمد اویس
سانحہ مشرقی پاکستان کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا اور اس کے اسباب پر تو خاطر خواہ مواد دستیاب ہے۔ مگر اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سقوط ڈھاکا کو بھارت، روس اور برطانیہ سمیت دیگر عالمی قوتوں کی مدد کے بغیر سر انجام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ شیخ مجیب نے متعدد مرتبہ برملا اعتراف کیا کہ بھارت کی مدد کے بغیر بنگلہ دیش نہیں بن سکتا تھا۔ خود اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مئی 1971ء ہی میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش قرار دے دیا۔ کچھ عرصہ پہلے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں خدمات سرانجام دینے والے غیر ملکیوں کے اعزاز میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شیخ حسینہ نے تسلیم کیا کہ ہم ان غیر ملکی دوستوں کی عسکری مدد کے بغیر آزادی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
بنگلہ دیش بنانے میں سب سے بڑا بیرونی ہاتھ بلاشبہ بھارت کا ہے اور اس کے اسی کردار ہی کی بدولت، 40 سال گزرنے کے بعد، اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ بنگلہ دیش کے دوستوں کو یاد کیا جائے اور انہیں آزادی کی جدوجہد میں کام کرنے پر اعزاز سے نوازا جائے، تو بنگلہ دیش کے سب سے بڑے قومی ایوارڈ کی حق دار بھارت کی یہی سابق وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی قرار پائیں۔ جی ہاں! وہی اِندرا گاندھی، جنہوں نے مشرقی پاکستان میں پہلے دہشت گرد ’’مکتی باہنی‘‘ اور بعد میں باقاعدہ بھارتی افواج داخل کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا تھا۔ اُس وقت پاکستان کو دو لخت کرنے کے لیے جتنی سازشیں وہ کر سکتی تھیں، انہوں نے کیں تاکہ بھارت ماتا کے دو ٹکڑے کرنے کا جو ناقابل معافی ’’جرم‘‘ قائداعظم سے سرزد ہوا تھا، اس کا بدلہ لے لیں۔
بنگلہ دیش میں روزِ اول سے خارجہ پالیسی اور معاشی پروگرام، بھارت کے زیرِ اثر بنتا اور آگے بڑھتا رہا۔ عام بنگالی مسلمان، بھارت کا طفیلی بن کر جینے کا مخالف ہے۔ مذہبِ اسلام سے وابستگی بنگال کی پرانی شناخت ہے۔ اسی بنیاد کو کمزور کرنے کے لیے وہاں مختلف حیلوں بہانوں سے اسلام پسندوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کا وجود حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے، جنہیں کچلنے کے لیے وہ بے تاب نظر آتی ہے۔ ان دنوں بنگلہ دیش کے اپوزیشن رہنماؤں کو دی جانے والی سزائوں کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت نوازی اور پاکستان دشمنی کو مزید فروغ دینے کے لیے، انہوں نے بنگلہ دیش کی ’’جنگ آزادی‘‘ میں حصہ لینے والے بیرون ممالک کے دوستوں کو اکٹھا کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ جس کے لیے پانچ سو سے زائد افراد کی فہرست بنائی گئی ہے۔ اب تک مختلف مراحل میں یہ اعزاز 277؍ افراد اور انجمنوں کو دیا گیا ہے، جن میں اکثریت بھارت کے سیاست دانوں اور افواج کے ذمہ داران کی ہے۔ اسی فہرست کے مطابق پہلی مرتبہ 13؍ پاکستانیوں کو بھی ایوارڈ ملا۔
13؍ پاکستانی جن کو بنگلہ دیش ایوارڈ سے نوازا گیا:
1۔ میر غوث بخش بزنجو (سیاست دان)
2۔ احمد سلیم (کارکن انسانی حقوق)
3۔ طاہرہ مظہر علی خان (کارکن انسانی حقوق)
4۔ ظفر ملک (وکیل)
5۔ پروفیسر وارث میر (استاد و صحافی)
6۔ ملک غلام جیلانی (سیاست دان)
7۔ فیض احمد فیض (صحافی)
8۔ حبیب جالب (شاعر)
9۔ ڈاکٹر اقبال احمد (دانشور)
10۔ انور پیرزادہ (سندھی شاعرو صحافی)
11۔ قاضی فیض عیسیٰ (سیاست دان)
12۔ بیگم نسیم اختر (سیاست دان)
13۔ شمیم اشرف (فلم ساز اور سیاست دان)
] نامزد ایوارڈ یافتگان کے ایوارڈ، ان کی طرف سے جن لوگوں نے وصول کیے ان میں: میر غوث بخش بزنجو کا ایوارڈ اُن کے صاحبزادے میر حاصل بزنجو، پروفیسر وارث میر کا اُن کے صاحبزادے حامد میر، ملک غلام جیلانی کا اُن کی صاحبزادی عاصمہ جہانگیر، فیض احمد فیض کا اُن کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی، حبیب جالب کا اُن کی بیٹی طاہرہ جالب نے وصول کیا۔ [
(بحوالہ: روزنامہ ’’اسٹار‘‘ ڈھاکا، بنگلہ دیش۔ 25 مارچ 2013ء)

ایک عام محب وطن پاکستانی کے لیے یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ وہ ایوارڈ جو بھارت کے جرنیلوں کو پاکستان کے مشرقی بازو پر حملہ و قبضہ کرنے پر اظہارِ تشکر کے لیے دیا جا رہا ہو، وہ کسی پاکستانی کو بھی ملے، اور وہ لے لے۔ لیکن اس دنیا میں المیے تو روز روز جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے چند پاکستانی نہ جانے کیا سوچ کر بڑی خوشی خوشی یہ ایوارڈ وصول کر آئے۔ اسی تقریب میں افواجِ پاکستان سے ہتھیار ڈلوانے والے بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے لیے بھی یہی اعزاز رکھا گیا تھا۔ پاکستان میں چند روز بعد بننے والی ایک نگران صوبائی وزیر صاحبہ نے تو وہیں کھڑے کھڑے، پاکستان کی باقاعدہ طور پر بنگلہ دیش سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرکے تقریب کی انتظامیہ کو باور کروادیا کہ ان کا ایوارڈ دینا رائیگاں نہیں گیا۔
بنگلہ دیش کی 1971ء کے سانحہ کی وجہ سے قومی شناخت گومگو کی حالت میں ہے۔ ایک طرف وہ قائداعظم کے ساتھیوں، مولوی فضل الحق اور حسین شہید سہروردی کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں، جنہوں نے انگریزوں اور ہندوئوں کے جبر سے بنگالیوں کو آزادی دلائی تھی اور دوسری طرف اندرا گاندھی اور جنرل اروڑا بھی ان کے عظیم قومی ہیرو ہیں، جنہوں نے قائداعظم کے پاکستان کو توڑنے میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ اسی ذہنی کیفیت کی وجہ سے موجودہ بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنا دورۂ اسلام آباد عین آخری لمحات میں منسوخ کر دیا اور شرط رکھ دی کہ پہلے پاکستان بنگالیوں سے معافی مانگے۔ حالانکہ خود ان کے والد شیخ مجیب الرحمن نے کبھی اس قسم کا غیر منطقی مطالبہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر اپنا دورہ منسوخ کیا تھا۔
اسی طرح جن پروفیسر صاحب کو بنگلہ دیشی جنگ آزادی میں معاونت پر ایوارڈ دیا گیا ہے وہ اُس وفد میں شامل تھے جو 1971ء میں حالات کی صحیح تصویر دیکھنے اور اپنے جذبات سے بنگالی بھائیوں کو آگاہ کرنے کے لیے عین عسکری آپریشن کے دوران مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے گئے تھے۔ 1971ء کے اسی وفد میں شامل طلبہ کے منتخب قائدین نے سقوط ڈھاکا کے بعد ’’بنگلہ دیش نامنظور تحریک‘‘ چلائی تھی۔ یہ تحریک وطنِ عزیز میں چلنے والی سیاسی تحریکوں میں بلاشبہ اپنا تاریخی مقام رکھتی ہے۔ 1972ء اور 1973ء میں ملک کے تمام تعلیمی ادارے ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ کے نعروں سے گونج رہے تھے۔ نوجوانوں کے لبوں پر یہی نعرہ تھا۔ اس تحریک کے مؤثر ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ خود ذوالفقار علی بھٹو (اُس وقت کے صدر پاکستان، بعد میں وزیراعظم) نے بھی کہا کہ اگر آپ کوبنگلہ دیش نامنظور ہے تو مجھے بھی بنگلہ دیش نا منظور ہے۔ تو بنگلہ دیشی وزیراعظم صاحبہ اسی وفد کے دیگر ارکان کو کس قسم کے ایوارڈ سے نوازنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
اپنے ملک میں اپنے ہی شہریوں پر اپنی فوج کے ذریعے سے قابو پانا کوئی دانش مندی نہیں۔ لیکن حیرت ہے ان لوگوں پر کہ جو پاکستانی افواج کے بنگلہ دیش سے معافی مانگنے پر اصرار کرتے ہیں، مگر انہیں بلوچستان، سوات اور قبائلی علاقہ جات میں آپریشن کے ضرر رساں نقصانات نظر نہیں آتے۔ اسی طرح انہیں انصاف اور انسانی حقوق کا علم بردار ہونے پر فخر ہوتا ہے لیکن انہیں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے 1971ء کے واقعات کی یک رخی تصویر کشی پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ نہ ہی انہیں شیخ حسینہ کی انتقامی کارروائیوں اور حزب اختلاف کی آواز کچلنے پر کوئی خلش محسوس ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی جرائم کے مقدمات میں انصاف کے بنیادی تقاضوں کی پامالی پر بھی پاکستان کے یہ نام نہاد حقوقِ انسانی کے چیمپئن خاموش ہیں۔ حالانکہ اس سارے عمل کی مذمت دنیا کے بیشتر ممالک، بشمول اقوام متحدہ بھی کر چکے ہیں۔ اِن بدنامِ زمانہ خصوصی عدالتوں کی کارروائیاں اتنی زیادہ غیر منصفانہ اور جانب دارانہ ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند انسان ان کی تائید نہیں کرتا، نہ کر سکتا ہے۔ مگر اس ظالم بنگلہ دیشی حکومت سے ایوارڈ لینے میں ہمارے ’’پاکستانی‘‘ روشن خیالوں کو کوئی عار نہیں ہوتی۔
24 مارچ 2013ء کو، جب ڈھاکا میں 13؍ پاکستانیوں کو بھی، پاکستان کو دولخت کرنے والوں کے اعزاز میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ایوارڈ سے نوازا جارہا تھا، اس سے ٹھیک 73 سال پہلے 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک (موجودہ مینار پاکستان پارک) میں شیربنگال مولوی فضل الحق کی قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ ایسے میں کچھ لوگوں کا یہ کہنا معقول لگتا ہے کہ قائداعظم کا دو قومی نظریہ ایک مرتبہ پھر خلیج بنگال میں غرق ہو گیا اور اِن ’’ایوارڈ یافتہ‘‘ پاکستانیوں کے تعاون سے غرق ہوا۔
(یہ تحریر پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی کی  یکم مئی 2013ء  کی اشاعت میں شائع ہو چکی ہے۔      http://irak.pk/2013/may-1st-2013/1533-pakistan-enmity-awards.html )