Thursday, April 10, 2014

کارکن کی شادی

کارکن کی شادی


ناظم کے قلم سے

شادی کے مقدمات تو کب سے پورے تھے، بس اس گھڑی کا انتظار تھا جوآسمان میں اس مبارک بندھن کے واسطے مقرر تھی۔ خدا خدا کر کے وہ دن آیا جب کارکن مٹھائی کا ڈبہ اور شادی کا کارڈ لیے میری طرف آیا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم اس کی دعوت ولیمہ مسنونہ میں شریک ہوئے۔ یہاں پہ یہ بتانا مفید ثابت ہو گا کہ کارکن سے ہماری شناسائی کو آنے والے مہینہ میں پورے ایک درجن سال ہو جائیں گے۔ ان بارہ سالوں نے زندگی پر ان گنت اثرات مرتب کیے۔ کچھ نمکین، چند کڑوے بہت سے میٹھے۔ آج شادی ہال میں کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے جب دلہا میاں سے پہلی ملاقات کا دل میں خیال آیا تو دماغ میں ایک فلم چل پڑی۔ ایک ایک کر کے وہ سارے سین آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے جب ناظم صرف ناظم تھا اور کارکن محض کارکن ہوا کرتا تھا۔

قصہ یہ ہوا کہ یہاں میری نارتھ سیکٹر سے ساؤتھ سیکٹر منتقلی ہوئی، وہیں کارکن نے شادباغ سے نیسپاک نقل مکانی کر لی۔ نیا نیا سیکٹر تخلیق ہوا تھا۔ تھوڑا سا کام تھا۔ افرادی قوت بہت ہی محدود تھی۔ ایک اندھیری رات کا ذکر ہے۔ میرے ساتھ ساؤتھ سیکٹر کے انچارج عاطف بھائی تھے جو اب خاصے بڑے پروفیسر صاحب ہو گئے ہیں اور ملائشیا پلٹ بھی ہیں۔ وہ مجھے سیکٹر کے آخری کونے میں لے کر گئے جہاں جا کر آبادی کا نام و نشان مٹنے لگتا تھا۔ سچی بات ہے کہ اگر ان کا ساتھ نہ ہوتا تو میں اکیلا کبھی اس طرف کا رخ بھی نہ کرتا۔ ویسے عاطف بھائی کو ہمیشہ میں نے بہادر ہی پایا ہے۔ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عاطف بھائی کچھ لالچی بھی تھے۔ اور لالچ یہ تھا کہ ایک عدد نوجوان جو بے حد صلاحیتوں کا مالک ہے نیا نیا ساؤتھ سیکٹر کی حدود میں داخل ہوا ہے۔ اس کو فوراً قابو کرنا ہے اس سے پہلے کہ ویسٹ سیکٹر والے، جہاں کے ایک مشہور سکول میں اس نے داخلہ لیا ہوا تھا، اسے لے اڑیں۔ خیر ایک تو گھر ڈھونڈنے کی دشواری کہ مکمل پتہ پاس نہ تھا اور دوسرا موبائل فون کا زمانہ نہ تھا کہ کوئی رابطہ ہو سکتا۔ کئی گھروں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بالآخر ہم رات گئے مطلوبہ نوجوان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ چھوٹی سی ملاقات ہوئی۔ اور آئیندہ ایک دوسرے سے ملتے رہنے کا وعدہ لے کر ہم اٹھ گئے۔

یہ ملاقات خاصی کامیاب رہی۔ کارکن باقاعدہ طور پر ہماری لسٹ (ربط) میں شامل ہو گیا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد اجتماع عام تھا۔ اس اجتماع میں خان صاحب نے جب خانساموں کے مدمقابل تندور کے ساتھ اپنا بوریا بستر لگا لیا تو انہیں ہمارے انچارج عاطف بھائی کی بھی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ عاطف بھائی ان کے ساتھ نتھی ہو گئے۔ اب عاطف بھائی کی جگہ ناظم کو ذمہ داریاں ادا کرنی پڑیں۔ ناظم خود چونکہ ابھی نیا نیا ناظم بنا تھا اور زیادہ کام سے گھبراتا تھا اس لیے اسے اچھے ساتھیوں کی تلاش ہوئی۔ ان میں ایک تو ویسٹ سیکٹر کے عثمان بھائی تھے اور دوسرا ہمارا کارکن، جس نے خود اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ کارکن نے بلا شبہ اس چھوٹی سی عمر میں اتنے بڑے بڑے کام کیے کہ سبھی عش عش کر اٹھے۔ اس کی ایک سے ایک بڑھ کر چھپی ہوئی صلاحیت آشکارا ہوئی کہ ناظم کا سارا اکیلا پن جاتا رہا۔

اجتماع عام کے بعد کارکن نے اپنا سکول تبدیل کر لیا اور گھر کے قریب ہی مزید تعلیم حاصل کرنے میں مگن ہو گیا۔ اس طرح ویسٹ سیکٹر کی لٹکتی ہوئی تلوار سے جان چھوٹی اور کارکن ہمہ وقت ساؤتھ سیکٹر کے کام کرنے لگ گیا۔ اس نے اپنے محلے میں کئی باصلاحیت اور ہنرمند افراد کو اپنے ساتھ ملایا۔ نئی اور تازہ کھیپ ہمارے ساتھ شامل ہوتی چلی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک مضبوط حلقہ قائم ہو گیا۔
میٹرک کے بعد کارکن کو ایف سی کالج میں داخلہ ملا۔ یہ اس کے داخل ہونے سے کچھ عرصہ پہلے ہی حکومت کے کنٹرول سے واپس چرچ کو دیا گیا تھا۔ چنانچہ اسے اس نئی انتظامیہ جن میں کئی غیر ملکی اور غیر مذہب کے لوگ تھے واسطہ پڑا۔ ان دنوں ناظم اسے ملنے کے لیے خاص کر ایف سی کالج جایا کرتا تھا۔ جہاں کے وسیع سبزہ زار میں بیٹھ کر یہ دونوں چائے پیا کرتے تھے۔

ویسے تو کارکن ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ ہر پروگرام، ہر جلسہ، ہر جھگڑا، جہاں بلاؤ پہنچ بھی جاتا تھا۔ لیکن ناظم کو اندازہ تھا کہ اندرونی احتسابی شکنجے سے پہلو تہی کرنا مشکل ہے۔ اس لیے جب کارکن کو رکن بنانے کا کٹھن مرحلہ درپیش ہوا تو ناظم کے لیے یہ بہت صبر آزما اور مشکل کام تھا۔ مہینوں سوچ و بچار میں لگائے کہ کیا ترکیب لڑائی جائے۔ ناظم کو اعتراف ہے کہ اس نے اس سلسلے میں کچھ تو کارکن کے پہلے سے استوار بیرونی تعلقات کو استعمال کیا اور دوسرا مقامی طور پر سفارت کاری کے تمام ممکنہ حر بے اختیار کیے۔ اس سب کے باوجود ابتدائی کوششیں رائیگاں گئیں۔ دوسری مرتبہ پھر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نہ کسی طرح رکنیت کی درخواست منظور ہوئی۔ لیکن ناظم کو ہر وقت ڈھرکا لگا رہتا تھا کہ اب کچھ ہوا کہ اب۔۔۔۔

کارکن نے انہی دنوں اسلامک یونی ورسٹی میں داخلہ کے لیے فارم بھجوادیئے۔ دل تو نہیں کرتا تھا کہ کارکن ایک دن کے لیے بھی نظروں سے اوجھل ہو مگر زمینی حقائق کچھ ایسے بن گئے تھے کہ ہر وقت نوخیز رکن کے پیچھے نادیدہ قوتیں ہاتھ دھو کر پڑی رہتی تھیں۔ جب کارکن نے ناظم سے اسلام آباد جانے کی اجازت مانگی تو دل پر پتھر رکھ کر اجازت دی۔ دماغ نے کہا کہ کارکن کی بھلائی اسی میں ہے کہ اسے کچھ عرصہ کے لئے منظر سے دور کردیا جائے۔

کارکن بیچارے پر کئی سخت وقت بھی آئے۔ سچ ہے کہ اس دنیا میں جو بھی آیا اس نے سختی کا مزہ تو چکھا ہی ہے۔ زندگی میں اگر فرض کرو کبھی ایسا وقت نا بھی آیا ہو تو موت کی سختی سے کس کو انکار ہے؟ ایسا ہی ایک مشکل مقام تب تھا جب اس نے ایک سہہ پہر کو مجھے مسلم ٹاؤن بلایا۔ وہ ان دنوں طالب علم تو اسلامک یونی ورسٹی کا تھا مگر کسی خاص کام کے سلسلے میں لاہور آیا ہوا تھا۔ ویسے تو کسی کی تکلیف میں ہنسنا بری بات ہے مگر اس وقت اس نے اپنی جو پریشانی بتائی اس پر ہم دونوں کافی دیر تک لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔ ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ یہ پریشانی اپنے جلو میں کس طوفان کو لیے آر ہی ہے۔

اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد کارکن واپس لاہور آگیا اور نئے سرے سے اپنے مستقبل کی تعمیر میں لگ گیا۔ اگلا سال واقعتاً بڑی مشکل کا تھا۔ لیکن جیسے تیسے کارکن نے وہ سال نکالا یہ اسی کا حوصلہ ہے۔ حوصلے جن کے بلند ہوں، راستے خود ان کے آگے آگے کھلتے جاتے ہیں۔ یہ قول کارکن کی اس یک سالہ جدوجہد پر صادق آتا ہے۔ بلآخر اسے یو ایم ٹی میں داخلہ مل گیا اور اپنی پسند کی فیلڈ یعنی سوشل سائنسز اور اس میں اس نے میڈیا میں مہارت کو منتخب کیا۔

یہاں سے اس کی زندگی نے کروٹ لی اور اچھی خاصی لے لی۔ سب سے پہلے تو عینک کا فریم چینج ہوا پھر ٹرانسپیرنٹ شیشوں کی جگہ رنگین شیشوں نے لے لی۔ اور پھر ساری دنیا ہی رنگین ہو گئی۔ مگر عینک کا نمبر جو پہلے دن تھا وہی رہا۔

ناظم ان دنوں بھی کبھی کبھار اسے ملنے یو ایم ٹی جایا کرتا تھا۔ گراؤنڈ میں بیٹھ کر چائے اور برگر بھی چلتے تھے۔ سورج چاند سب پہلے ہی کی طرح گردش کر رہے تھے، چاروں موسم اپنے وقت پہ آتے، صبح اسی طرح نمودار ہوتی اور شام اسی طرح ڈھلکتی لیکن بھر بھی زندگی میں کچھ کمی سی تھی۔ ناظم ناظم نہ رہا تھا اور کارکن کارکن نہ رہا تھا کہ دونوں کو نظم کا پاس تھا۔ برسوں کا رشتہ اپنی نوعیت کو تبدیل کر چکا تھا۔

خیر زمانہ کبھی ایک سا بھی نہیں رہا۔  ناظم کو جیسا کہ دستور دنیا ہے، فراغت سے پہلے ایک سال کے لیے مالیات کا انچارج بنایا گیا۔ اور انہی دنوں کارکن شہر کے میڈیا سیل کو سنبھالے ہوئے تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ وہ دونوں دوبارہ ایک چھت تلے اکھٹے ہوگئے ۔ روزانہ شام کو ملاقاتیں ہونے لگیں۔ زندگی میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں سما گئیں۔ ایک دن ناظم کو اپنے ٹیبل پر ایک خط ملا۔ کھول کر دیکھا تو وہ انچارج میڈیا سیل کی جانب سے کچھ فرمائیشیں تھیں جو انچارج بیت المال کو کی گئی تھیں۔ عام حالات میں کبھی اس طرح کی فارملیڑیز کی ضرورت نہ تھی بس یہ کارکن کی ان خاص اداؤں میں سے تھی جس کے آگے ناظم دل چھوڑے بیٹھتا تھا۔

ناظم کو یوں لگا کہ کارکن نے وہ سطریں میڈیا سیل کے لیٹر پیڈ پر نہیں، ناظم کے دل پر لکھ دی ہوں۔ زمان و مکان کی دوریاں بھی ان الفاظ کو دھندلا نہیں سکیں۔ کارکن آج بھی ناظم کے دل میں بستا ہے۔ بظاہر آج کارکن اور ناظم کے درمیان لاہور سے لے کر ڈی جی خان تک کا فاصلہ حائل ہے مگر دل میں رہنے والے تو کسی فاصلے پر نہیں ہوتے۔ خدا کرے کہ یہ چاہت ان دونوں کے درمیان اس وقت تک قائم رہے جب انسانوں کے اعمال کی میزان لگی ہو گی اور سورج سوا نیزے پر آگ برسا رہا ہوگا۔ کسی کو کسی کا ہوش نہ ہو گا۔ کہا جائے گا کہ دنیا میں جو لوگ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے وہ عرش کے سائے تلے آجائیں کہ اس روز اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔