Wednesday, December 4, 2013

اہل حق حریت آموز از حسین رضی اللہ عنہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اہل حق حریت آموز از حسینؓ  [1]

احمد اویس

محرم کی دس تاریخ اور ہجری سن 61   ( 680 سن عیسوی)کو سیدنا  حسین ا بن علی ؓ نے اپنی جان کی اور اپنے خاندان کی بچوں سمیت جو قربانی دی، وہ  تاریخ اسلام میں ایک عظیم قربانی قرار پائی۔  امام  حسین ؓ جس مقصدِ عظیم   کی خاطر گھر سے نکلے تھے  وہ  یہ تھا کہ اسلامی ریاست کے دستور میں کی گئی تحریف  کی اصلاح کر دی جائے۔ اصل میں یہی وہ نقطہ آغاز تھا جس کے تھوڑے عرصہ میں ہی مسلم معاشرے  میں وہ خرابیاں اور برائیاں رواج پائیں  جن  کی وجہ سے خلافت راشدہ جیسے مثالی اور عالی شان ادارے سے مسلمان محروم ہو گئے۔ تھوڑا سا غور کیا جائے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ  یہ اتنی بڑی تبدیلی تھی  جس کو ٹھیک کرنے کے لیے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم ، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں پرورش پانے والے اور اپنی جوانی اور بڑھاپا صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی بہترین سوسائٹی میں گزارنے والے حضرت امام حسینؓ   کیوں اس  نقطہ انحراف کے آگے کھڑے ہو گئے تھے۔ اس کوشش کا جو بھی انجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے مگر  امام نے اس خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس  کے نتائج کو انگیز کر کے جو چیز ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا  وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جن کی حفاظت کے لئے ایک مومن اپنا سر بھی کٹوا دے اور اپنے بال بچوں  کی قربانی بھی دے دے تو اس مقصد کی خاطر یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے:

چوں خلافت رشتہ از قرآں گسیخت       حریت راز ہر اندر کام ریخت

خاست آں سر جلوہ خیر الاممﷺ       چوں سحاب قبلہ باراں درقدم
                          برزمین    کربلا   بارید   و       رفت      لالہ  در  ویرانہ ہا  کارید و رفت[2]                                                    
چودہ سو سال سے امام عالی مقام کی شہادت  ایک مینارہ نور کی مانند   مسلمانوں کی انتہائی پستی اور زوال کے عالم  میں بھی  اپنے سے بعد میں آنے والوں کو سچ کے رستے میں جان کی بازی لٹا دینے کا درس دیتی آ رہی ہے۔ ہر زمانے کے  حق پرستوں کو امام نے اپنے عمل سے جو مہمیز دی، وہ ہمیشہ  انہیں خدا سے باغی طاقتوروں کے سامنے  خد اکی کبریا ئی کا اعلان کرنے پر آمادہ کرتی رہی ہے ۔  اسلامی تاریخ کی آبرو انہی جوان مردوں سے قائم ہے، جنہوں نے غلط اقتدار اور مادی ترغیبات کے سامنے سپر نہیں ڈالی، اور صحیح مقصد کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہا دیا۔  

حضرت امام حسین  رضی اللہ  عنہ کی شہادت کے ٹھیک  100 سال بعد امام احمد بن  حنبلؒ 780ء  میں  بغداد میں  پیدا ہوئے۔ آپ کو دس لاکھ حدیثیں یاد تھیں۔ امام شافعی ؒ ان کے بڑے معترف اور قدردان تھے، بغداد سے جاتے ہوئے انھوں نے فرمایا" میں بغداد چھوڑ کر جا رہا ہوں، اس حالت میں کہ وہاں احمد بن حنبل سے بڑھ کر نہ کوئی متقی ہے نہ کوئی فقہیہ"۔ ساری زندگی رسول اللہ کی سنت کی پیروی اور حفاظت کرتے گزار دی۔ ان کے زمانے میں  فتنہ خلق قرآن کا مسئلہ پوری شد و مد سے سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھ رہا تھا۔ تمام علما کرام کے لئے خلیفہ کی طرف سے لازم کر دیا گیا تھا کہ وہ  خلق قرآن کے عقیدہ کو تسلیم کریں ورنہ اختلاف کی صورت میں سخت سے سخت سزاؤں کے لئے تیار رہیں۔ امامِ سنت   کو اس حکم عدولی پر جب دارالخلافہ لایا گیا تو ان کے پاؤں میں چار بیڑیاں پڑی تھیں، تین دن تک ان سے اس مسئلہ پر مناظرہ کیا گیا، لیکن وہ اپنے عقیدہ سے نہیں ہٹے۔ چوتھے دن والئ    بغداد کو لایا گیا، اس نے کہا کہ احمد! تم کو اپنی زندگی ایسی دوبھر ہےٗ خلیفہ تم کو اپنی تلوار سے قتل نہیں کرے گا لیکن اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم نے اس کی بات قبول نہ کی تو مار پر مار پڑے گی اور تم کو ایسی جگہ ڈال دیا جائے گا جہاں کبھی سورج نہیں آئے گا۔ اس کے بعد امام کو خلیفہ  معتصم کے سامنے پیش کیا گیا اور ان کو اس انکار  پر 28 کوڑے لگائے گئے۔ اور کیفیت یہ تھی کہ  ایک تازہ جلّاد صرف دو کوڑے لگاتا تھا، پھر دوسرا جلاد بلایا جاتا تھا، امام احمد ہر کوڑے پر فرماتے تھے:" میرے سامنے اللہ کی کتاب یا اس کے رسول کی سنت سے کچھ پیش کرو تو میں اس کوما ن لوں۔" امامِ وقت  کو روزے کی حالت میں جو کوڑے لگائے گئے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر ایک کوڑا ہاتھی پر پڑتا تو چیخ مار کر بھاگ جاتا۔ آپ کا انتقال 855ء میں ہوا۔

1263ء میں شمالی عراق کے ایک  تاریخی شہر حرّان  میں تقی الد ین احمد ابن تیمیہ کی ولادت ہوئی ۔ اس  زمانہ  میں تا تاریوں  کی ہیبت اور خوف کی وجہ سے پورا عالم اسلام لرزہ بر اندام تھا۔ ابن تیمیہ ابھی سات برس کے تھے کہ ان کا آبائی وطن حرّان تا تاری حملہ کی زد میں آگیا۔ مجبور ہو کر ان کا خاندان ہجرت کر کے شام کے شہر دمشق  منتقل ہو گیا۔ ابن تیمیہ نے اپنے زمانہ کے تمام مروجہ علوم کی تحصیل کی۔ ا ن کی تصنیفات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا زندگی کا مطالعہ وسیع اور عمیق تھا۔ انھوں  نے عوام سے الگ تھلگ کسی علمی گوشہ میں زندگی نہیں گزاری تھی۔22 سال کی عمر میں شیخ الاسلام نے  اپنے والد کی وفات پر انہی کی مسند درس کو زینت دی۔

1299ء میں تا تاریوں نے شام کی طرف قصد کیا۔  اپنی پہلی جنگ میں ہی  تا تاریوں نے مصر اور شام کی افواج کو شکست سے دوچار کر دیا۔ دمشق کے باہر تا تاریوں کا پڑاؤ تھا۔ شہر کے لوگوں کے مشورے سے یہ طے پایا کہ  امام ابن تیمیہ  تا تاری فرمانروا قاز ان  سے ملاقات کریں گے۔ شیخ نے قاز ان کو بہت نصیت کی اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنے پر ملامت کی۔ ان کے ساتھی ان کی جرأت پر ڈرے جا رہے تھے کہ تا تار بادشاہ کا غضب ان پر ابھی ٹوٹا کہ اب۔ لیکن قاز ان شیخ سے بہت مرعوب ہوا اور ان سے دعا کی درخواست کی۔ شیخ نے ان الفاظ کے ساتھ دعا کرائی: خدایا اگر آپ کے نزدیک قاز ان کا اس جنگ سے مقصد تیرے کلمہ کی بلندی اور جہاد فی سبیل اللہ ہے تو اس کی مدد فرما اور اگر سلطنت دنیا اور حرص و ہوس ہے تو اس سے تو سمجھ لے۔

تین سال بعد کچھ حالات اس قسم کے پیش آگئے کہ شیخ کو مصر طلب کر لیا گیا اور  وہاں ابن تیمیہ کے عقائد پر اعتراضات کیے گئے۔ اور ان پر ڈٹے رہنے کی وجہ سے  شیخ الاسلام کو پابند سلاسل کر دیا گیا۔ ایک سال کے بعد یعنی 1307ء میں ان کے رہائی کے بدلے ان کو کہا گیا وہ اپنے عقائد سے رجوع کر لیں۔ جب اس کی اطلاع کی گئی تو ابن تیمیہ نے صاف انکار کر دیا۔ چھ مرتبہ ان کو دعوت دی گئی مگر انھوں نے منظور نہیں کیا۔

ایک سال  سے زائد عرصہ تک شیخ قید میں رہے۔ لیکن یہ ان کی پہلی اور آخری اسیری نہ تھی۔ ابھی ان کی رہائی کو چند ماہ ہی گذرے تھے کہ دوبارہ ان کی نظر بندی کے احکامات آگئے ۔1309 ء میں مصر کے نئے بادشاہ نے انہیں شہر بدر کردیا۔1318ء میں ان کے ایک فتویٰ کی بنیاد پر سلطان کی طرف سے  فرمان جاری کیا گیا اور انہیں وہ مخصوص فتویٰ  دینے سے روک دیا گیا۔ مگر شیخ کو یہ گوارا نہ تھا کہ حکومت کے جبر کی وجہ سے جس چیز کو وہ حق پر سمجھتے ہیں، اس سے رک جائیں۔ چنانچہ 1320ء میں انہیں قلعہ میں نظر بند کر دیا گیا۔

آخری مرتبہ ان کے محبوس کئے جانے کا فرمان  1326ء میں جاری ہوا۔ اس قید میں ہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے وفات پائی۔ قلعہ میں ان کے ساتھ ان کے بھائی اور مایہ ناز شاگرد ابن قیم بھی  رہے۔ دو سال تک شیخ نے  قید خانہ میں  اپنی تصنیفات پر کام جاری رکھا۔ لیکن  ان کے مخالفین کے دباؤ پر ان سے یہ سہولت بھی چھین لی گئی۔ بعد میں وہ کوئلے سے تحریر کرتے رہے۔ ان کو اس حالت میں بھی اپنے مسلک کی صحت اور بے گنا ہی کا یقین تھا، وہ اپنا جرم اتنا ہی سمجھتے تھے کہ انہوں نے ایک مسئلہ شرعی میں حاکم وقت کی بات نہیں مانی اور جس کو وہ حق سمجھتے تھے اس پر اڑے رہے، لیکن وہ اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو ایمان و یقین کا مقتضا سمجھتے تھے: " ان کا بڑے سے بڑا الزام یہ ہے کہ ایک انسان کی (جو دوسرے انسانوں کی طرح خدا کا ایک بندہ ہے) حکم عدولی کی ۔ مخلوق خواہ حاکم وقت ہو یا سلطانِ دوراں جب اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی مخالفت کرے گا تو اس کی بات کبھی نہیں مانی جائے گی، بلکہ باتفاق مسلمین اللہ اور رسول کی مخالفت کی حالت میں اس کی اطاعت جائز ہی نہیں۔"

            1903ء کو اورنگ آباد دکن میں پیدا ہونے والے سید ابوالاعلیٰ مودودی نے بطور صحافی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ابھی 24 برس کے تھے تو ایک دن  دلی کی جامع مسجد میں مولانا  محمد علی جوہر کی ہندو مسلم فسادات پر ایک تقریر  سنی  ۔اس سے متاثر ہو کر اپنی پہلی کتاب  "الجہاد فی الاسلام" لکھی ۔ جس کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا: اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر یہ ایک بہترین تصنیف ہے اور میں ہر ذی علم آدمی کو مشورہ دیتا ہوں کہ وہ اس کا مطالعہ کرے۔  علامہ اقبال  ہی کی دعوت پر دکن کو خیرباد کہہ کر  پنجاب میں سکونت اختیار کی اور اپنے علمی اور تحقیقی کام  سے دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کو نظریاتی اساس فراہم کی۔
   
           11 مئی 1953ء کو لاہور کی فوجی عدالت نے  سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کو سزائے موت سنا دی۔ جرم اتنا تھا کہ  سید مودودی نے "قادیانی مسئلہ" کے نام سے ایک تحریر لکھی تھی  جس کو بنیاد بنا کر  ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔   اس کے علاوہ ان پر حکومت کے خلاف بغاوت پھیلانے کی فرد جرم بھی عائد کی گئی۔ مولانا مودودی اور ان کے ساتھیوں سے ایک ہفتہ تک  لاہور کے قلعہ میں  تفتیش کی گئی اور بالآخر مولانا  کو سزائے موت اور دوسرے ساتھیوں کو قید کی سزا سنائی گئی۔  ان کے جیل کے ساتھی کہتے ہیں کہ جب مولانا کو سزا کا علم ہوا تو ان پر کوئی خو ف و ہراس  طاری نہ ہوا۔ اور جب انہیں عام لباس کی بجائے سزائے موت کے قیدیوں کا مخصوص  لباس پہنا دیا گیا تو وہ اسی  لباس میں بڑے اطمینان سے گہری نیند سوگئے۔ جیل کے حکام حیران  ہو رہے تھے کہ  وہ خوفزدہ اور پریشان ہونے کی بجائے اتنے مطمئن اور سکون میں کیسے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اس سزا کے خلاف کمانڈر انچیف سے رحم کی درخواست کر نا  چاہتے ہیں  تو آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ اگر خدا نے میری موت کا فیصلہ کر دیا ہے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا اور اگر خدا نے فیصلہ نہیں کیا تو یہ لوگ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔

سید قطب  1906ء  میں پیدا ہوئے۔ قاہرہ یونی ور سٹی اور امریکا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مصری معاشرے میں ایک شاعر اور  ادیب کی حیثیت سے شہرت پائی۔1954ء میں  مصر کی حکومت نے ایک اخبار "اخوان المسلمون"  کو اس لئے بند کر دیا کہ اس نے  حکومت کے  انگریزوں سے ایک معاہدے کی مخالفت کی تھی۔ متعدد افراد کو موت کی سزائیں دی گئیں جب کہ جریدے کے ایڈیٹر سید قطب کو گرفتار کر لیا گیا۔ جیل میں سید قطب پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ انہیں آگ سے داغا گیا، پولیس کے کتوں نے انہیں گھسیٹا، ان کے سر پر مسلسل کبھی گرم اور کبھی ٹھنڈا پانی انڈیلا گیا، انہیں لاتوں اور گھونسوں سے مارا گیا، دل آزار الفاظ اور اشاروں سے ان کی توہین کی گئی۔  عدالت کی طرف سے  انہیں 15 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی۔ حکومت کا ایک نمائندہ انہیں جیل میں ملنے گیا اور انہیں پیشکش کی کہ اگر آپ چند سطریں معافی نامہ کی لکھ دیں تو آپ کو رہا کر دیا جائے گا۔ اس کے جواب میں سید قطب نے فرمایا" مجھے ان لوگو ں پر تعجب آتا ہے کہ جو مظلوم کو کہتے ہیں کہ ظالم سے معافی مانگ لے۔ خدا کی قسم! اگر معافی کے چند الفاظ مجھے پھانسی سے بھی نجات دے سکتے ہوں تو میں تب بھی کہنے کے لئے تیار نہ ہوں گا۔ اور میں اپنے رب کے حضور اس حال میں پیش ہونا پسند کروں گا کہ میں اس سے خوش ہوں اور وہ مجھ سے خوش ہو۔"

سید قطب کی آخری تصنیف "معالم فی الطریق"  (Milestones) ہے۔ اس میں انہوں نے اسلامی نظریہ اور اسلامی تنظیم کے بنیادی خدوخال بیان کیے ہیں۔ اس کتاب کا مرکزی خیال  یہ ہے کہ جس طرح اسلام کے صدر اول میں اسلامی معاشرہ ایک مستقل اور جداگانہ معاشرہ کی صورت میں ترقی و نمو کے فطری مراحل طے کرتا ہوا بام عروج کو پہنچا تھا اسی طرح آج بھی ویسا صحیح اسلامی معاشرہ وجود میں لانے کے لیے اسی طریق کو اختیار کیا جانا لازم ہے۔ اس اسلامی معاشرے کو ارد گرد کے جاہلی معاشروں سے الگ رہ کر اپنا تشخص قائم کرنا ہو گا۔ اس کتاب کے مندر جات کو بنیاد بنا کر عدالت میں یہ الزام لگایا گیا کہ سید قطب حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں۔ اسی اظہار رائے کے جرم میں   25 اگست 1966 ء کو سید قطب کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

یہ ہے وہ سیدھا اور سچا راستہ جو کبھی قید و بند کی صعوبتیں جھیلتا ہےٗ کبھی تشدد  اور ہجرت  کا سامنا کرتا ہے اور کبھی پھانسی کے پھندوں پہ جھول جاتا ہے لیکن  سچ کی راہوں پہ چلنے والے صورت خورشید  ہر نئی صبح کو  پوری  آب و تاب اور چمک دمک کے ساتھ گزشتہ  شب کے اندھیروں کو مٹانے کے لئے پھر سے آ موجود ہوتے ہیں۔ ایک اللہ سے ڈرنے والے بھلا کب کسی کے آگے  سجدہ ریز ہوتے ہیں۔  وہ تو زمانے کی ہر غلط  ریت پر سوال کرتے ہیں۔   ظلم کے رواج کو بدلنے کے لئے آوازہ  بلند کرتے ہیں۔   جہالت کے خلاف  صداقت کا عَلم اٹھاتے ہیں۔ جب  سبھی سو رہے ہوں تو  اذان دینے کا کام کسی کو تو کرنا ہی ہوتا۔   یقیناً دنیا کے کسی کونے میں آج بھی حسین کے نام لیوا یزیدِ وقت سے نبرد آزما ہوں گے۔ یزیدیت اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت حسینیت کا نام و نشان  مٹانے کے درپے ہو گی۔ وہ یزید کو شکست دے سکیں یا نہیں،  اس روز، جب  سب گروہوں کو ان کے پیشواؤں کے ساتھ پیش کیا جائے گا، فیصلہ ہو جائے گا کہ فتح کس کی ہے اور اصل میں شکست کون کھائے بیٹھا ہے۔

مگر کیا کِیا  جائے کوفیوں کا کہ دل ان کے امام حسین کے ساتھ ہیں پر تلواریں یزید کی حمایت میں نکلتی ہیں ۔اپنے سامنے کی سچائی  کو جانتے  بوجھتے جھٹلانے والے لوگ  ہمیشہ یزید کے لشکروں کو تقویت دیتے ہیں۔ حسین کے ساتھ تو وہ کھڑ ا ہو گا جسے خدا نے سچ  کی  توفیق دی ہو۔ سچائی کے متلاشیوں کے لیے شہدا کے مقدس لہو سے سیراب ،کربلا کی سرزمین سے پھوٹتے گل سرسبدکا پیغام تو بس یہی ہے:

"جو شخص کسی ایسے بادشاہ کو دیکھے جو اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال سمجھے اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑ دے، سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرے، اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور ظلم و عدوان کا معاملہ کرے اور یہ شخص اس  کے ایسے افعال و اعمال کو دیکھنے کے باوجود کسی قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ اس کو بھی اسی ظالم بادشاہ کے ساتھ اسی کے مقام(دوزخ) میں پہنچا دے۔"[3]

) نوٹ: تاریخی واقعات "تاریخ دعوت و عزیمت" از سید ابو الحسن علی ندوی سے لیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ شہادت امام حسینؓ ، شہید کربلا، جادہ و منزل اور قادیانی مسئلہ سے مدد لی گئی ہے۔)




[1]  علامه اقبال کا پورا شعر یوں ہے:
در نوائے زندگی سوز از حسینؓ       اہل حق حریت آموز از حسینؓ
ترجمہ: زندگی کے نغمے میں حضرت حسینؓ کی وجہ سے سوز پیدا ہوا اور اہل حق نے انہیں سے آزادی کا سبق لیا۔

 [2]  ترجمہ: جب خلافت نے قرآن مجید سے تعلق توڑ لیا، حریت کے حلق میں زہر ڈال دیا گیا۔ یہ حالت دیکھ کر سب سے بہتر امت کا وہ نمایاں ترین جلوہ یوں اٹھا جیسے قبلے کی جانب سے گھنگھور گھٹا اٹھتی ہے اور اٹھتے ہی جل تھل ایک کر دیتی ہے۔ یہ گھنگھور گھٹا کربلا کی زمین پر برسی اور چھٹ گئی۔ ویرانوں کو لالہ زار بنا دیا اور چل دی۔

[3]  حضرت حسین ؓ کے میدان جہاد میں ایک خطبہ سے اقتباس۔

Monday, July 8, 2013

اسلام پسند پھر سے دوراہے پرہیں!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلام پسند پھر سے دوراہے پرہیں!
احمد اویس
ڈاکٹر محمد مرسی  کے اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر مصر کی افواج نے اندرونی اور بیرونی دباؤ کے سبب انہیں  معزول کر کے  گرفتار کر لیا۔ ان کے ساتھ ہی میڈیا میں گردش کرتی افواہوں کے مطابق اخوان المسلون کے سربراہ اور ان کی ٹیم کو بھی گرفتار کر کے اسی جیل میں بند کر دیا گیا جہاں پر مصر کے عوام پر بد ترین آمریت مسلط کرنے والے سابق صدر حسنی مبار ک کو رکھا گیا تھا۔ جیل کے باہر جیسے  حسنی مبارک کے چلے جانے پر عوام خوشی سے بے قابو ہوتے جا رہے تھے اسی سے ملتے جلتے ردعمل کا اظہار عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر مرسی کے جانے پر بھی کیا جا رہا ہے۔
دنیا بھر کے تجزیہ کار اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔ مغرب اور مغرب کے ہم پیالہ دانشور اخوان المسلون پر  ناتجربہ کاری ، غلط حکمت عملی  ، پارٹی   پالیسیوں کا حکومت پر اثر انداز  ہونا، معیشت کا عدم استحکام اور خارجہ پالیسی کی ناکامی وغیرہ وغیرہ جیسے الزامات لگا رہے ہیں۔ جب کہ مذہب سے دلچسپی رکھنے والے رہنما  سارا ملبہ امریکا اور اسرائیل پر ڈال کر بری ذمہ ہو رہے ہیں۔ بات کوئی بھی ہو، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس سقوط  سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو صدمہ پہنچا اور اسلام کو جمہوری اور دستوری انداز میں نافذ کرنے کے راستے مزید مشکل اور فکری طور پر مبہم ہو گئے ہیں۔
اخوان المسلون دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے  زیادہ عمر اور تجربہ رکھتی ہے۔  ایک طویل عرصے تک اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے کارکنوں نے اپنے عزم اور حوصلے پست نہیں ہونے دئیےاور   حکومت قائم کر کے یہ دکھا دیا کہ سب مزاحمتیں صبر اور جہد مسلسل سے بالآخر دم توڑ دیتی ہیں۔ اخوان کے کارکنوں پر جو ظلم و ستم جیلوں کے اندر اور باہر ڈھائے گئے ہیں وہ  انسانی دنیا کو درندوں کی آماجگاہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اخوان نے نا صرف مصر کے حالات کو بدلنے میں خاطر خواہ حصہ ڈالا بلکہ پورے عالم عرب میں اپنی ذیلی تنظیموں کے ذریعے اپنے پیغام کو ہر درد دل رکھنے والے فرد تک پہنچایا۔ ان کے طریقہ کار  کی بنیاد  شروع ہی   سے دعوت اور خدمت رہی ۔ البتہ ماضی میں  جب جبر سہتے سہتے   حد ہو گئی تو اخوان کے کچھ  نوجوانوں نے طاقت کے ذریعے بھی حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن تنظیم کے مثالی نظم و ضبط  نے انہیں واپس دعوتی اور دستوری جدوجہد پر آمادہ کر لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ باب مکمل بند ہو گیا جب ہی تو مصر کے عوام نے اپنی آزاد رائے کا وزن اخوان کے پلڑے میں ڈالا۔
یہاں ایک دفعہ پھر غور و فکر کرنے والے اسلام پسندوں کو یہ مرحلہ درپیش ہے کہ آخر اخوان کی تحریک میں کیا سقم رہ گیا تھا کہ انہیں ایک سال میں ہی مسترد کر دیا گیا۔ کیا بنیادی طور پر  یہ بات ہی غلط ہے کہ جمہوریت  کے راستے اسلام آ ہی نہیں سکتا؟  یا فوج کی مدد کے بغیر اسلامی انقلاب جڑ نہیں پکڑسکتا۔ الجزائر کی فوج کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے  کے بعد  مصر کی فوج  نے اس شبہ کو مزید تقویت دی ہے کہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ دراصل مسلم ممالک کی افواج ہیں۔ جن کا سارا ناک و نقشہ  مغرب نے اپنی ضرورتوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا ہے۔یا  اگر اسلام پسند ملک کے اندر کے  اداروں اور گروہوں  کو قابو کر بھی لیتے ہیں تو بیرونی حملہ آوروں سے مزاحمت کیسے کریں گے؟ جب کہ مسلم ممالک کا کوئی اتحاد غیر مسلموں سے بچاؤ کے لیے موجود نہیں ہے۔ طالبان  کا عروج و زوال اس کی مثال ہے۔ عالم اسلام میں  یہ مکتبہ فکر بھی  مقبول ہے کہ حکومت سازی  کے لئے جہدو جہد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ حکمران تو عوام کا عکس ہوتے ہیں۔ اچھے اعمال کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انعام کے طور پر اچھے حکمران عطا کر دیتے ہیں۔ تبلیغی جماعت  سے وابستہ لوگ ان ساری چیزوں  کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ گو کہ ان کا بظاہر کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے لیکن معاشرے میں ان کا وزن نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں۔
ہمارا نقطہ نظر کوئی بھی ہو، ہم سب مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی ایک ملک میں یا کسی ایک تنظیم کی ناکامی اسلام کی ناکامی نہیں ہے۔ اسلام کو تو بہرحال  پوری دنیا میں غالب آنا ہے۔ اسلام کے نفاذ کے جتنے راستے بھی  بیان کیے جاتے ہیں چاہے وہ  طاقت کےحصول کے بعد میدان جہاد سے متعلق ہوں یا محض دعوتی اسلوب تک ہی بات ختم ہو جاتی ہو،سیکولر لوگوں  کے ساتھ مفاہمت ہو یا مذہبی طبقات  کا اکٹھ  ہو ان سب کا تھوڑا بہت تجربہ پچھلی دو دہائیوں میں  دنیا کے مختلف خطوں میں تقریبا ہو چکا ہے۔ ان کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں اور کہاں کہاں کمزوری رہ گئی  ہے  ان کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کے حالات کے مطابق کیا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے یہ آج دنیا بھر کی تحریک اسلامی کے لیے اہم سوال ہے  اور اسے عمل کے قالب میں ڈھالنا اصل چیلنج ہے۔

(یہ تحریر قلم کارواں بلاگ پر 7 جولائی 2013ء  کی اشاعت میں شائع ہو چکی ہے۔ http://www.qalamkarwan.com/2013/07/islam-pasand-daorahay-par.html)

Friday, May 10, 2013

پاکستان دشمنی ایوارڈ----معارف فیچر


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پاکستان دشمنی ایوارڈ
احمد اویس
سانحہ مشرقی پاکستان کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا اور اس کے اسباب پر تو خاطر خواہ مواد دستیاب ہے۔ مگر اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سقوط ڈھاکا کو بھارت، روس اور برطانیہ سمیت دیگر عالمی قوتوں کی مدد کے بغیر سر انجام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ شیخ مجیب نے متعدد مرتبہ برملا اعتراف کیا کہ بھارت کی مدد کے بغیر بنگلہ دیش نہیں بن سکتا تھا۔ خود اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مئی 1971ء ہی میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش قرار دے دیا۔ کچھ عرصہ پہلے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں خدمات سرانجام دینے والے غیر ملکیوں کے اعزاز میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شیخ حسینہ نے تسلیم کیا کہ ہم ان غیر ملکی دوستوں کی عسکری مدد کے بغیر آزادی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
بنگلہ دیش بنانے میں سب سے بڑا بیرونی ہاتھ بلاشبہ بھارت کا ہے اور اس کے اسی کردار ہی کی بدولت، 40 سال گزرنے کے بعد، اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ بنگلہ دیش کے دوستوں کو یاد کیا جائے اور انہیں آزادی کی جدوجہد میں کام کرنے پر اعزاز سے نوازا جائے، تو بنگلہ دیش کے سب سے بڑے قومی ایوارڈ کی حق دار بھارت کی یہی سابق وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی قرار پائیں۔ جی ہاں! وہی اِندرا گاندھی، جنہوں نے مشرقی پاکستان میں پہلے دہشت گرد ’’مکتی باہنی‘‘ اور بعد میں باقاعدہ بھارتی افواج داخل کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا تھا۔ اُس وقت پاکستان کو دو لخت کرنے کے لیے جتنی سازشیں وہ کر سکتی تھیں، انہوں نے کیں تاکہ بھارت ماتا کے دو ٹکڑے کرنے کا جو ناقابل معافی ’’جرم‘‘ قائداعظم سے سرزد ہوا تھا، اس کا بدلہ لے لیں۔
بنگلہ دیش میں روزِ اول سے خارجہ پالیسی اور معاشی پروگرام، بھارت کے زیرِ اثر بنتا اور آگے بڑھتا رہا۔ عام بنگالی مسلمان، بھارت کا طفیلی بن کر جینے کا مخالف ہے۔ مذہبِ اسلام سے وابستگی بنگال کی پرانی شناخت ہے۔ اسی بنیاد کو کمزور کرنے کے لیے وہاں مختلف حیلوں بہانوں سے اسلام پسندوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کا وجود حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے، جنہیں کچلنے کے لیے وہ بے تاب نظر آتی ہے۔ ان دنوں بنگلہ دیش کے اپوزیشن رہنماؤں کو دی جانے والی سزائوں کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت نوازی اور پاکستان دشمنی کو مزید فروغ دینے کے لیے، انہوں نے بنگلہ دیش کی ’’جنگ آزادی‘‘ میں حصہ لینے والے بیرون ممالک کے دوستوں کو اکٹھا کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ جس کے لیے پانچ سو سے زائد افراد کی فہرست بنائی گئی ہے۔ اب تک مختلف مراحل میں یہ اعزاز 277؍ افراد اور انجمنوں کو دیا گیا ہے، جن میں اکثریت بھارت کے سیاست دانوں اور افواج کے ذمہ داران کی ہے۔ اسی فہرست کے مطابق پہلی مرتبہ 13؍ پاکستانیوں کو بھی ایوارڈ ملا۔
13؍ پاکستانی جن کو بنگلہ دیش ایوارڈ سے نوازا گیا:
1۔ میر غوث بخش بزنجو (سیاست دان)
2۔ احمد سلیم (کارکن انسانی حقوق)
3۔ طاہرہ مظہر علی خان (کارکن انسانی حقوق)
4۔ ظفر ملک (وکیل)
5۔ پروفیسر وارث میر (استاد و صحافی)
6۔ ملک غلام جیلانی (سیاست دان)
7۔ فیض احمد فیض (صحافی)
8۔ حبیب جالب (شاعر)
9۔ ڈاکٹر اقبال احمد (دانشور)
10۔ انور پیرزادہ (سندھی شاعرو صحافی)
11۔ قاضی فیض عیسیٰ (سیاست دان)
12۔ بیگم نسیم اختر (سیاست دان)
13۔ شمیم اشرف (فلم ساز اور سیاست دان)
] نامزد ایوارڈ یافتگان کے ایوارڈ، ان کی طرف سے جن لوگوں نے وصول کیے ان میں: میر غوث بخش بزنجو کا ایوارڈ اُن کے صاحبزادے میر حاصل بزنجو، پروفیسر وارث میر کا اُن کے صاحبزادے حامد میر، ملک غلام جیلانی کا اُن کی صاحبزادی عاصمہ جہانگیر، فیض احمد فیض کا اُن کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی، حبیب جالب کا اُن کی بیٹی طاہرہ جالب نے وصول کیا۔ [
(بحوالہ: روزنامہ ’’اسٹار‘‘ ڈھاکا، بنگلہ دیش۔ 25 مارچ 2013ء)

ایک عام محب وطن پاکستانی کے لیے یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ وہ ایوارڈ جو بھارت کے جرنیلوں کو پاکستان کے مشرقی بازو پر حملہ و قبضہ کرنے پر اظہارِ تشکر کے لیے دیا جا رہا ہو، وہ کسی پاکستانی کو بھی ملے، اور وہ لے لے۔ لیکن اس دنیا میں المیے تو روز روز جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے چند پاکستانی نہ جانے کیا سوچ کر بڑی خوشی خوشی یہ ایوارڈ وصول کر آئے۔ اسی تقریب میں افواجِ پاکستان سے ہتھیار ڈلوانے والے بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے لیے بھی یہی اعزاز رکھا گیا تھا۔ پاکستان میں چند روز بعد بننے والی ایک نگران صوبائی وزیر صاحبہ نے تو وہیں کھڑے کھڑے، پاکستان کی باقاعدہ طور پر بنگلہ دیش سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرکے تقریب کی انتظامیہ کو باور کروادیا کہ ان کا ایوارڈ دینا رائیگاں نہیں گیا۔
بنگلہ دیش کی 1971ء کے سانحہ کی وجہ سے قومی شناخت گومگو کی حالت میں ہے۔ ایک طرف وہ قائداعظم کے ساتھیوں، مولوی فضل الحق اور حسین شہید سہروردی کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں، جنہوں نے انگریزوں اور ہندوئوں کے جبر سے بنگالیوں کو آزادی دلائی تھی اور دوسری طرف اندرا گاندھی اور جنرل اروڑا بھی ان کے عظیم قومی ہیرو ہیں، جنہوں نے قائداعظم کے پاکستان کو توڑنے میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ اسی ذہنی کیفیت کی وجہ سے موجودہ بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنا دورۂ اسلام آباد عین آخری لمحات میں منسوخ کر دیا اور شرط رکھ دی کہ پہلے پاکستان بنگالیوں سے معافی مانگے۔ حالانکہ خود ان کے والد شیخ مجیب الرحمن نے کبھی اس قسم کا غیر منطقی مطالبہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر اپنا دورہ منسوخ کیا تھا۔
اسی طرح جن پروفیسر صاحب کو بنگلہ دیشی جنگ آزادی میں معاونت پر ایوارڈ دیا گیا ہے وہ اُس وفد میں شامل تھے جو 1971ء میں حالات کی صحیح تصویر دیکھنے اور اپنے جذبات سے بنگالی بھائیوں کو آگاہ کرنے کے لیے عین عسکری آپریشن کے دوران مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے گئے تھے۔ 1971ء کے اسی وفد میں شامل طلبہ کے منتخب قائدین نے سقوط ڈھاکا کے بعد ’’بنگلہ دیش نامنظور تحریک‘‘ چلائی تھی۔ یہ تحریک وطنِ عزیز میں چلنے والی سیاسی تحریکوں میں بلاشبہ اپنا تاریخی مقام رکھتی ہے۔ 1972ء اور 1973ء میں ملک کے تمام تعلیمی ادارے ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ کے نعروں سے گونج رہے تھے۔ نوجوانوں کے لبوں پر یہی نعرہ تھا۔ اس تحریک کے مؤثر ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ خود ذوالفقار علی بھٹو (اُس وقت کے صدر پاکستان، بعد میں وزیراعظم) نے بھی کہا کہ اگر آپ کوبنگلہ دیش نامنظور ہے تو مجھے بھی بنگلہ دیش نا منظور ہے۔ تو بنگلہ دیشی وزیراعظم صاحبہ اسی وفد کے دیگر ارکان کو کس قسم کے ایوارڈ سے نوازنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
اپنے ملک میں اپنے ہی شہریوں پر اپنی فوج کے ذریعے سے قابو پانا کوئی دانش مندی نہیں۔ لیکن حیرت ہے ان لوگوں پر کہ جو پاکستانی افواج کے بنگلہ دیش سے معافی مانگنے پر اصرار کرتے ہیں، مگر انہیں بلوچستان، سوات اور قبائلی علاقہ جات میں آپریشن کے ضرر رساں نقصانات نظر نہیں آتے۔ اسی طرح انہیں انصاف اور انسانی حقوق کا علم بردار ہونے پر فخر ہوتا ہے لیکن انہیں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے 1971ء کے واقعات کی یک رخی تصویر کشی پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ نہ ہی انہیں شیخ حسینہ کی انتقامی کارروائیوں اور حزب اختلاف کی آواز کچلنے پر کوئی خلش محسوس ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی جرائم کے مقدمات میں انصاف کے بنیادی تقاضوں کی پامالی پر بھی پاکستان کے یہ نام نہاد حقوقِ انسانی کے چیمپئن خاموش ہیں۔ حالانکہ اس سارے عمل کی مذمت دنیا کے بیشتر ممالک، بشمول اقوام متحدہ بھی کر چکے ہیں۔ اِن بدنامِ زمانہ خصوصی عدالتوں کی کارروائیاں اتنی زیادہ غیر منصفانہ اور جانب دارانہ ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند انسان ان کی تائید نہیں کرتا، نہ کر سکتا ہے۔ مگر اس ظالم بنگلہ دیشی حکومت سے ایوارڈ لینے میں ہمارے ’’پاکستانی‘‘ روشن خیالوں کو کوئی عار نہیں ہوتی۔
24 مارچ 2013ء کو، جب ڈھاکا میں 13؍ پاکستانیوں کو بھی، پاکستان کو دولخت کرنے والوں کے اعزاز میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ایوارڈ سے نوازا جارہا تھا، اس سے ٹھیک 73 سال پہلے 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک (موجودہ مینار پاکستان پارک) میں شیربنگال مولوی فضل الحق کی قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ ایسے میں کچھ لوگوں کا یہ کہنا معقول لگتا ہے کہ قائداعظم کا دو قومی نظریہ ایک مرتبہ پھر خلیج بنگال میں غرق ہو گیا اور اِن ’’ایوارڈ یافتہ‘‘ پاکستانیوں کے تعاون سے غرق ہوا۔
(یہ تحریر پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی کی  یکم مئی 2013ء  کی اشاعت میں شائع ہو چکی ہے۔      http://irak.pk/2013/may-1st-2013/1533-pakistan-enmity-awards.html )