Showing posts with label سچ ٹی وی. Show all posts
Showing posts with label سچ ٹی وی. Show all posts

Tuesday, January 29, 2013

" پاکستان کے وفادار، بنگلہ دیش کے غدار " (saach.tv)



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
" پاکستان کے وفادار، بنگلہ دیش کے غدار "
احمد اویس
بالآخر متنازعہ  انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل بنگلہ دیش نے اپنے قیام کے بعد پہلے مجرم کا تعین کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزاد کو سزائے موت سنا دی ہے۔ یہ خصوصی عدالت  عوامی لیگ کے انتخابی منشور کا اہم حصہ تھی جسے انھوں نے اقتدار میں آ کر 2010 میں  قائم کیاتھا ۔ وزیر اعظم  شیخ حسینہ اور ان کی ٹیم کا موقف یہ ہے کہ  1971 کی جنگ آزادی میں بیرونی حملہ آوروں  کے ہمراہ جنہوں نے اپنے دیس کے لوگوں کو قتل کیا یا افواج پاکستان کے 9 ماہ تک جاری رہنے والے آپریشن میں ان کی معاونت کی  ان کو قرار واقعی سزا دی جانی چاہیے۔ یہ انصاف کے منتظر ان تیس لاکھ لوگوں کے خون کا قرض ہے جو پاکستان سے آزادی کی جنگ میں مارے گئے تھے۔
اپوزیشن لیڈر اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاء اس عدالت کی حیثیت کو متنازعہ کہتی ہیں ۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کا نقطہ نظر یہ ہے کہ محض سیاسی انتقام کے تحت مخالفین کے خلاف مقدمات بنائے جا رہے ہیں۔ جو الزامات لگائے جا رہے ہیں وہ سب جھوٹے ہیں اور ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ خود اقوام متحدہ اس عدالت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ ہیومن رائٹس کی تنظیمیں جو پہلے اس طرح کی تحقیقات کرانے کے حق میں تھیں اب اس میں خرابیوں کی نشاندہی کر رہی ہیں۔ امریکا سمیت دیگر ممالک بھی اس کے طریقہ کار پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں ۔ ترکی کے صدر عبد اللہ گل نے تو باقاعدہ  طور پر بنگلہ دیشی حکومت کو خط لکھا اور تمام مقدمات ختم کرنے پر زور دیا۔
اس سب  عالمی دباؤ کے باوجود حکومت نے تمام کاروائی کو اپنے انجام تک  پہنچانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔عوامی لیگ بھارت کی حامی جماعت سمجھی جاتی ہے اور اس نے بھارت سے تعلقات کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ خاص کر بنگلہ دیشی حکومت کو توقع  ہے کہ بھارت ، بنگلہ دیش میں اپنی براہ راست سرمایہ کاری میں مزید اضافہ کرے گا اور اسے 9 بلین ڈالرز تک لے جانے کے منصوبے پائپ لائین میں ہیں۔  اس تناظر میں یہ سارا معاملہ بھارت نوازی کے علاوہ کچھ اور نہیں لگتا۔
کیا واقعی جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی صف اول کی قیادت سمیت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے 2 رہنماؤں پر لگنے والے الزامات درست ہیں؟ اور اگر یہ صحیح ہیں تو  ان لوگوں کو اپنا آزادانہ دفاع کرنے سے کیوں روکا جا رہا ہے۔ ابھی اسی مولانا ابوالکلام آزاد کے مقدمہ میں بھی حکومت کی طرف سے جو وکیل صفائی مقرر کیا گیا تھا اس پر بھی وہاں کے لوگوں کو تحفظات تھے۔ اور جس عجلت میں مقدمہ کی  یہ ساری کاروائی مکمل  کی گئی ہے اس سے شکوک و شبہات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ خاص کر خصوصی عدالت کے چیف جسٹس نظام الحق کے پچھلے ماہ دسمبر والے  سکینڈل،  جس میں انہیں عدالتی کاروائی کے متعلق  معلومات کو بیرون ملک بھیجنے کی ای میلز اور سکائپ ریکارڈنگ منظر عام پر آئی تھی اور اس کے نتیجہ میں انہیں مستعفی بھی ہونا پڑا، نے اس پر بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ جنہیں کلی طور پر نظر انداز کرنا بنگلہ دیشی حکومت کے بس میں نہیں۔
1971 کی جنگ جسے بنگلہ دیشی عوام نے پاکستان سے نجات حاصل کرنے کے لیے لڑا تھا اور بھارتی فوج کی مدد کے ساتھ اسے جیت بھی لیا تھا اور اسی جنگ کے نتیجہ میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ اس جنگ کے بارے میں ایک پاکستانی اور بنگلہ دیشی کی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔  لیکن 40 سال پہلے کے مقدمات کو کھولنا جب نہ تو کوئی گواہ پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کیے جا سکتے ہیں محض پاکستان کے خلاف تعصب کے علاوہ کچھ نہیں۔  جن اپوزیشن رہنماؤں پر الزامات لگے ہیں وہ 40 سال تک اسی ملک میں موجود رہے۔ ملکی ترقی اور سیاست میں بخوبی اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ان سےکبھی ملک کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کا ثبوت نہیں ملا۔ خالدہ ضیاء کے دور میں وہ حکومت کے سب سے اہم اتحادی اور وزارتوں پر فائز لوگ تھے۔ جماعت اسلامی کو وہاں کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس طرح کے بھونڈے الزامات  جو دراصل پاک فوج کے خلاف جاتے ہیں ،عوام کےمنتخب نمائندوں کو پابند سلاسل کرنا کوئی دانش مندی  نہیں ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے اور   تمام فریقوں کی رضا مندی سے اس طرح کی کوئی کاروائی کرے۔
This is an exclusive piece for saach.tv
 

Monday, October 1, 2012

مسافران شوق سے چند باتیں---حج (سچ ٹی وی).


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

مسافر ان ِشوق سے چند باتیں
احمد اویس
حج پر جانے کا شوق کسے نہیں ہوتا۔ سبز گنبد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے لوگ ساری ساری عمر تنکا تنکا جوڑ کر  زاد راہ اکھٹا کرتے ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہی ہیں جو اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات تک کو قربان کر کے اس عظیم سفر میں جاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ ابھی تو بیٹی کو رخصت کرنے کا سامان بھی میسر نہیں  ہے، ابھی تو کرایہ کے مکان سے چھٹکارا بھی نہیں ملا۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ  دربدر کی ٹھوکریں کھاتے بڑھاپا آگیا ہے مگر ابھی تو کوئی جمع پونجی نہیں ہے جو اس عمر میں ہمارے یا ہمارے بچوں کے کام آئے گی۔ میری زندگی کی شاید تھوڑی سی مدت رہ گئی ہے  بس ایک ہی خواہش ہے کہ کسی طرح  اپنی ان اندھی ہوتی  آنکھوں سے اللہ جی کا گھر دیکھ لوں۔ پیارے نبی جی صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ مبارک کا دیدار کر لوں۔ مجھ سے چلنے پھرنے کی نعمت چھینی جا رہی ہے بس کسی طرح اپنے سب سے بڑےمحبوب کے در کا ایک طواف کر لوں۔ساری عمر گناہ کرتے کرتے گزار دی۔ اب بہت شرمندہ ہوں۔ چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے اس رب کریم کی خوشنودی کے لیے حج کر لوں، اس ذات سے تو پوری امید ہے کہ حج کے بعد میں ایسے ہو جاؤں گا کہ جیسے ابھی ماں کے پیٹ سے نکلا ہوں۔
ہم سب گواہ ہیں کہ صرف شوق ہی ایک ایسا اثاثہ ہے جو اس سفر پر جانے کے لیے درکار ہے۔ آپ کی آنکھیں اپنے پیاروں کو  نہ دیکھ سکتی ہوں۔ آپ اپنے پیروں پر چل کر محلّہ کی مسجد تک نہ جا سکتے ہوں۔ شوگر آپ کے کنٹرول سے باہر ہو۔ ہائی بلڈ پریشر سے آپ کی زندگی اجیرن ہو گئی ہو۔ کمر سیدھی کر کے آپ کھڑے نہ ہو سکتے ہوں۔ دل کے والو بند ہوں ۔ جوڑ جوڑ دکھتا ہو۔ اس گھر کی برکت سے سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ پرانے پرانے مرض یوں ختم ہوتے ہیں جیسے سرے سے ان کا وجود  ہی نہ ہو۔ ورنہ ایسے بد نصیب بھی ہیں کہ  جو سب کچھ ہوتے ہوئے  بھی حج کی سعادت سے محروم رہتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ حج کا سفر آسان بہرحال نہیں ہے۔ اس کے لیے پہلےتو ایک اچھی خاصی رقم درکار ہے ۔ ہمارے ملک کی اکثریت آبادی اپنی عمرکے آخری حصے میں حج کے لیے اس لیے بھی نکلتے ہیں کہ عمر بھر ان کے پاس اتنی رقم جمع ہی نہیں ہو پاتی کہ وہ اپنے شوق اور فرض کی تکمیل کر سکیں۔ پھر جسمانی صحت اور قوت  کا بھی خاصا امتحان ہوتا ہے۔ انسان کی طبیعت اور رویہ کی آزمائش ہوتی ہے۔ بڑے بڑے لوگوں کی اوپر سے ملمع کاری کی تہہ اتر کر ان کا اصل چہرا سامنے آجاتا ہے۔بندہ مومن کے ایمان اور محبت کا تو ہر وقت  پتہ چلتا رہتا ہے۔ صبر اور برداشت ہر لمحہ مطالبہ کرتی نظر آتی ہیں۔ گھر کی سہولیات اور بچوں کی یاد بھی دامن پکڑنے  آجاتی ہیں۔ ایسے میں ایک حاجی سے بہت سی ایسی باتیں ہو جاتیں ہیں جو کہ نہیں ہونی چاہیں تھیں۔
سب سے زیادہ تو ایک حاجی سے جس چیز کی اُمید کی جاتی ہے اور سب سے زیادہ جس چیز میں کوتاہی ہوتی ہے وہ نظم و ضبط کا نہ ہونا ہے۔ ویسے تو ہمارا دین ہمیں نظم و ضبط کی ہر جگہ تلقین کرتا ہے۔ نماز باجماعت اس لیے پڑھائی جاتی ہے تا کہ عام زندگی میں مل جل کر اُٹھنا بیٹھنا آجائے۔ رمضان کے روزے ساری دنیا میں اکھٹے رکھے جاتے ہیں ۔ اسی طرح حج جیسے  بڑے  اجتماع میں اگر نظم و ضبط میں جھول رہ جائے تو بڑے بڑے حادثات کا خطرہ ہوتا ہے اور دوسروں کو تکلیف دے کر اپنی نیکیوں کو گناہوں میں تبدیل کرناتو  یقیناً عقل مندی کا تقاضا نہیں ہے۔ آپ گھر سے کافی پہلے نکلتے ہیں تو حاجی کیمپ میں انتظار کے صبر آزما لمحات سے گزرنا پڑتا ہے۔ فلائٹس کا تاخیر سے آنا، رہائش کے مناسب انتظامات نہ ہونا، ٹرانسپورٹ  اور ہجوم کی مشکلات ان سب کو اگر انفرادی طور پر منتظمین کی ہدایات کے مطابق ترتیب دیا جائے تو اپنی  اور اپنے ساتھ والے حاجی صاحبان کے لیےبھی  خاصی آسانی کا سبب بن سکتا ہے۔
حج کی تیاری اور اس کے مسائل سیکھنے کی طرف بالعموم ہمارے دیہاتی  پس منظر والے حجاج کرام کی توجہ نہیں ہوتی۔ بہت تکلیف  دہ بات ہے کہ اتنی آرزؤں اور زندگی بھر کی کمائی خرچ کرنے کے بعد یہ با برکت سفر کیا جائے اور پھر بھی اس  سے فائدہ اٹھانے کی بجائے نقصان کرا بیٹھیں۔ جی ہاں، جب لوگوں سے غلطیوں پہ غلطیاں ہوتی ہیں تو  دم پہ دم پڑتا ہے جس سے حاجی صاحب کا اپنا بھی دم نکل جاتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جب سے آپ نے ارادہ کیا ہے تب سے ہی اس کی تیاری بھی شروع کر دیں۔ اگر کسی ایسے ساتھی کا بندوبست ہو سکے جس کو ساری تفصیل کا علم ہو تو اس کے ساتھ ساتھ رہنے کی کوشش کریں۔ گروپ میں موجود کوئی عالم دین ہوں تو وہ یہ خدمت اچھے طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں۔ ہمارے نجی میڈیا چینلز کو بھی چاہئے کہ اتنے اہم مسئلے میں لوگوں کی رہنمائی کریں۔
ایک اور بات فقہی اختلافات کے متعلق بھی سمجھنی چاہئے۔ جو اس قسم کے اختلافات ہوتے ہیں ان پر خوامخواہ کسی ایک طریقہ پر اصرار کرنا اور دوسرے کو غلط کہنا فساد کی جڑ ہے۔ جس سے شیطان جو پہلے ہی  حاجی سے خائف ہوتا ہے اس کو موقعہ مل جاتا ہے کہ وہ آپ کا حج خراب کرے۔ بنیادی بات تو یہی ہے کہ "اپنا مسلک چھوڑو نہیں اور دوسرے کا مسلک چھیڑو نہیں"۔منیٰ میں اور عرفات میں ان خرافات میں پڑ کر آپ کسی امام کی حمایت نہیں بڑھا رہے ہوتے بلکہ اپنے حج کا ثواب ضائع کر رہے ہوتے ہیں۔سعودی حکومت اور علما کو بھی چاہیے کہ وہ اس ضمن میں اگر اتفاق رائے ہو سکے تو کر لیں ورنہ کم از کم اتنا تو کریں کہ اپنے متعین کردہ رہنماؤں کو دوسرے مسلکوں کی تعلیم بھی دیں تا کہ  وہ لوگوں سے اُلجھنے کی بجائے ان کی مدد کرنے والے بنیں۔ پھر کچھ ایسی آسانیاں بھی سعودی علما نے اجتہاد کے ذریعے حجاج کرام کے لیے نکالی ہیں جن کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کے حج کو آسان بنایا گیا۔ مگر مشکل یہی آتی ہے کہ دیگر ممالک سے آئے ہوئے حجاج کو ان کے مقامی علما نے سختی سے ایسی چیزوں کی پیروی سے روکا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر رمی کے اوقات کو دن اور رات پر محیط کرنا   اور احرام اتارنے کے بعد قربانی  کرنے کو سعودی بالکل ٹھیک  سمجھتے ہیں۔ انتظامی اعتبار سے قریب قریب یہ ناممکن بھی ہے کہ سبھی لوگ  مغرب سے پہلے پہلے رمی کر لیں اوریہ بھی مشکل ہے کہ  سب کی قربانی صبح صبح ہی ہو جائے اور  حاجی اطمینان سے احرام اُتار کر دیگر فرائض سر انجام دے سکے۔ اس سلسلے میں دیگر ممالک کے علما سے مشاورت کر کے انہیں بھی اس بات پر آمادہ کرنا چاہئے۔
صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔ مگر آپ سوچ سکتے ہیں کہ دنیا بھر کے چنیدہ  مسلمانوں کے اجتماع میں  صفائی کی کیا حالت ہو گی۔ ویسے تو اگر اتنا بڑا مجمع خدا کے منکروں کا بھی ہو تب بھی صفائی ایک مسئلہ ہو گا ہی،مگر مسلمانوں کو بہرحال بہتر رویہ اختیار کرنا چاہے۔ منیٰ میں اگر ہر فرد اپنی ذمہ داری سے ہر طرح کا کوڑا کرکٹ  مقررہ جگہ پر ڈال دے تو کافی بہتر ماحول نظر آسکتا ہے۔ اسی طرح کھانسی زکام تو وہاں کی عام بیماری ہے۔ مگر جگہ جگہ تھوکنے کو اگر روکا جا سکے تو  ہم اپنے نصف ایمان کی حفاظت بہتر انداز میں کر سکیں گے۔
لڑائی جھگڑا تو آپ کے کریم رب کو اتنا ناپسند ہے کہ خاص طور پر قرآن مجید میں اس سے منع کیا گیا ہے۔ اور عام تجربہ ہے کہ یہ ایک حاجی کا سب سے نازک پہلو ہوتاہے۔ گھر سے دور رہنا اچھا خاصا مجاہدہ ہے۔ اور پھر اتنا سارا رش اور ہجوم  اوپر سے کوئی بیماری آجائے یا ویسے ہی قوت ارادی میں  ضعف ہو تو بھلے سے بھلا انسان بھی چڑچڑا ہوجاتا ہے۔ یہ بات ذہن میں ہر وقت یاد رکھنی چاہیے اور اپنے ساتھیوں کو بھی یاد دلاتے رہنا چاہیے کہ جیسے ہی آپ نے کوئی ایسی ویسی بات کی جو ربّ کو ناراض کرنے کا باعث ہو سکتی ہو تو آپ کا قبول ہوا ہوا حج ٹھکرایا جا سکتا ہے۔
حج ختم ہونے کے بعد کچھ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ  بس جی اب ہمارے گناہوں کا میڑ دوبارہ زیرو سے شروع ہو گیا ہے۔ چنانچہ وہ کچھ اتنا خیال نہیں رکھ پاتے جتنا حج سے پہلے رکھتے تھے۔  ہماری خواتین اپنے نامناسب پردے کی وجہ سے پہلے ہی قوم کے لیے شرمندگی کا باعث بنی ہوتی ہیں۔ حج ختم ہونے کے بعد عبایا تو اتر ہی جاتے ہیں۔ حج ٹرمینل پر دوپٹے بھی  گلوں میں آجاتے ہیں ۔ اور اپنے ملک پہنچ کر  ابھی ائر پورٹ سے باہر نہیں نکلتے کہ گالیوں کا تبادلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر معاملات میں بھی ہوتا ہے۔کچھ حاجی صاحبان سعودیہ سے کافی زیادہ خریداری کرتے ہیں اور نتیجہ میں انہیں ائر پورٹ پر اضافی رقم دینی پڑتی ہے۔ یہاں پر ائرپورٹ کا عملہ آپ کے ایمان اور امانت کا امتحان لینے کے لیے موجود ہوتا ہے۔ دھیان رکھنا چاہئے کہ کوئی اور دیکھے نہ دیکھے اللہ تو دیکھ رہا ہے۔ حج کے موقعہ پر جو آپ نے اپنے رب سے تجدید عہد کیا تھا اسے ساری عمر یاد رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہ دعا بھی ضرور کرنی چاہئے کہ حج کے ثمرات اور اس کی برکتیں دونوں جہاں میں ہمارے ساتھ ساتھ رہیں۔
This is an exclusive piece for saach.tv

Monday, September 17, 2012

توہین آمیز فلم----احمد اویس (سچ ٹی وی)


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

توہین آمیز فلم
احمد اویس
اور اب ایک مزید فلم اسلام کے خلاف تیار کر لی گئی ہے۔ نجانے ان لوگوں پر کیا بھوت سوار ہے کہ پے در پے توہین اسلام کرتے چلے جا رہے ہیں۔ہر دفعہ پہلے سے زیادہ شدید ردعمل سامنے آمنے کے باوجود ان کے کلیجوں میں لگی تعصب کی آگ  کسی طرح ٹھنڈی ہونے میں ہی نہیں آرہی۔ اور تو اور یہ کوئی ایک دو افراد یا کسی انتہا پسند تنظیم کی کارستانی نہیں بلکہ جسے بھی دیکھو  ایک نئے طریقے سے اسلام جیسے مذہب پر کیچڑ اُچھالنا شروع کر دیتا ہے۔ ان کا سارا نظام بشمول ان کی حکومت  اس شیطانی کارستانی پر خاموش مجرم کا کردار ادا کرتی ہے۔
ایک مسلمان چاہے وہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتا ہو، وہ کتنا ہی بے عمل اور گناہ گار ہو، کتنا ہی روشن خیال اور ترقی پسند ہو جائے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے دل سے نہیں نکلتی۔ وہ ساری چیزیں برداشت کر لیتا ہے مگر اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس کو خطرے میں نہیں دیکھ سکتا۔ اب کی بار بھی یہی ہوا کہ ہر طبقہ فکر سے اس شرارت کے خلاف آواز بلند ہوئی ہے۔ تمام لوگوں نے چاہے وہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں یا کوئی بھی سیاسی وابستگی اپنائے ہوئے ہوں، اپنے اپنے دائرے میں موثر احتجاج کیا۔ حکومتی سطح پر بھی ایسی ویب سائٹس کو بلاک کرنا اور  سفارتی احتجاج قابل تحسین ہیں۔  اس کے ساتھ ساتھ ہی  پر تشدد احتجاج کی مذمت بھی ضروری ہے۔
  اس دفعہ جہاں پورا عالم اسلام ہی اس ملعون حرکت کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا ہے وہیں مصر ان سب میں پیش پیش ہے۔ایک طرف تو یہ وہاں کی حکومت کے لیے امتحان ہے کہ کیسے وہ اپنے  شہریوں کی توقعات پر پورا اترتی ہے وہیں دوسری طرف مغربی میڈیا اور ان کی حکومتیں اس سے فائدہ اٹھا کر مصر کے خلاف ایک نیا محاذ کھڑا کرنے کی تیاریوں میں دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے ایک بات ہے اگر مصر مغرب کے دباؤ کے باوجود اپنے موقف پر صحیح طور پر جما رہے تو وہ عالم اسلام کی ایک متفقہ قیادت کے طور پر سامنے آ سکتا ہے۔ پاکستان نے جب سے اپنی یہ پوزیشن چھوڑی ہے تو عام طور سے عالم اسلام ترکی اور مصر ہی کی طرف دیکھتا ہے کہ شاید وہاں سے کوئی امید کی کرن نظر آجائے۔ اور اکثر و بیشتر وہ مایوس بھی نہیں کرتے۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ فلم بنانے والوں پر اس احتجاج کا کوئی اثر ہو اور وہ  اس کا نوٹس لیں، دنیا بھر کے مسلمانوں کی دل آزاری کرنے پر معافی مانگیں۔ ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی جائے۔ آیندہ ایسے واقعات نہ دہرائے جانے کے متعلق کوئی قانونی اور عدالتی فیصلہ سامنے لایا جائے۔ مگر پہلے کی طرح اب بھی کوئی مثبت رویہ سامنے آنے کی بجائے امریکا بہادر کبھی تو کہتا ہے کہ اس میں ہم شریک نہیں ہیں، ہم لاعلم تھے کہ اس میں کوئی توہین اسلام کا پہلو بھی نکل آئے گا۔ اور کبھی اپنے سفیر کا نقصان کر کے یہ کہتا ہے کہ امریکیوں کی جان بچانے کے لیے تمام وسائل برئے کار لائے جائیں گے۔ گویا امریکا کے علاوہ اور کسی کو اپنی آزاد مرضی سے یہاں سانس لینے کا حق ہی نہیں۔ ان کے لوگ جو کچھ چاہیں کرتے رہیں کوئی روکنے والا نہیں ہونا چاہیے۔
دیکھنا چاہیے کہ آخر ہم میں کیا خرابی ہے کہ  ایک واقعہ کے بعد ایک اور واقعہ سر اٹھا کر چلا آتا ہے۔ مسلم حکمرانوں کی تو خیر بات ہی کیا۔ عام عوام بھی اسلام کی حقیقی تعلیمات سے اتنا دور ہو چکے ہیں کہ بنیادی عقائد تک سے کوئی سروکار نہیں۔ جو لوگ مذہبی سمجھے جاتے ہیں ان کے کردار بھی کوئی اتنے اچھے نہیں ہیں کہ مثال کے طور پر پیش کیے جا سکیں۔ حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والا توہین رسالت  کیس میں بھی اب تک کی جو معلومات آئی ہیں ان میں ہمارے معاشرے کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ ہم نے اپنی قیادت ، چاہے وہ محلہ کی سطح کی ہو یا ملکی سطح کی، کے منصب پر فائز ان لوگوں کو کر دیا ہے جو کسی طرح بھی اس کے لائق نہیں ہیں۔ آئے روز ان کی وجہ سے ملک کی بدنامی ہوتی رہتی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یورپ اور امریکا کے غلط اقدامات کے خلاف احتجاج ضرور کریں اور اس کے ساتھ ساتھ ہی اپنے اندر کی برائیوں کے خلاف بھی کسی جدوجہد  کو لازم قرار دیں ۔ اخلاقی تعلیم کو عام کیا جائے۔ اس زندگی کو سوچ سمجھ کر اور ذمہ داری کے ساتھ گزارا جائے۔ اپنی اناکے خول سے نکلا جائے۔ خدا کی نافرمانی سے بچا جائے اور صرف نبی کریم صلہ اللہ علیہ وسلم کی ناموس کی خاطراحتجاج کے علاوہ ان کی پیاری اور سچی تعلیمات پر عمل بھی کیا جائے۔ جب تک یہ اندرونی طور پر صفائی کا اہتمام نہیں ہوتا تو مغرب سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ ہمارے احتجاج کے نتیجے میں ان مذموم حرکتوں سے باز آجائیں گے۔
This is an exclusive piece for saach.tv

http://www.saach.tv/2012/09/17/toheen-ameez-film/