Saturday, December 6, 2014

ڈاکٹر سید منصور علی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ڈاکٹر سید منصور علی
احمد اویس
یہ آج سے گیارہ سال پہلے  کی بات ہے۔ بزم پیغام کے ایک پروگرام میں امور مربین کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے پہلا تعارف ہوا۔ سنا تو بہت تھا ان کے بارے میں لیکن ملاقات پہلی دفعہ ہونی تھی۔ کچھ کچھ حیرت تھی کہ بچوں کے اس پروگرام میں اتنے بڑے سکالر کا لیکچر رکھوا لیا ہے ،  کہیں سامعین  (جو سکول کے بچوں پر مشتمل تھی) کے لئے بوجھل نہ ہوجائے۔ خیر ٹیلی فون پر ہی وقت لیا۔ بہت محبت سے بات کی اور وقت طے ہوگیا۔  پروگرام کے دن دیگر کاموں کی مصروفیت کے دوران اچانک مجھے یاد آیا کہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے ، ڈاکٹر صاحب  سے دوبارہ یاد دہانی کی  تو بات ہی نہیں ہوئی ۔ میں دوڑا دوڑا   سڑک کے دوسری طرف ایک پی سی او   (پبلک کال آفس) پر گیا۔ ان کے گھر رابطہ کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ گھر پر تو نہیں ہیں۔ یکدم پریشانی نے گھیر لیا ، اب کیا کریں۔  پروگرام تو شروع ہونے والا ہے کیسے رابطہ کریں؟
 میں منہ لٹکائے واپس آگیا۔ صدر صاحب کو بتایا۔ انہوں نے تسلی دی کہ جب انہوں نے وقت دے دیا تھا تو اب وہ ضرور آئیں گے۔ اور ہوا بھی یہی کہ عین مقررہ وقت پر ڈاکٹر صاحب تشریف لے آئے اور حسب معمول ہمارے پروگرام کے شروع ہونے میں ابھی تاخیر تھی۔ چنانچہ اپنے معزز مہمان کو  مصروف رکھنے  کے لئے بھی مجھے ہی ذمہ داری ادا کرنا پڑی۔ علمی قابلیت کا رعب تو پہلے ہی تھا۔ اب ان کی طرف سے وقت کی پابندی اور ہماری جانب سے تاخیر نےمجھے مزید  شرمندگی کے بوجھ تلے دبا دیا۔ حالانکہ وہ خود درجہ کمال کی عاجزی و انکساری کا وصف رکھتے تھے اور انہوں نے ذرا بھی یہ محسوس نہیں کرایا کہ  انہیں اس تاخیر سے کتنی زحمت ہو رہی ہے۔ اسی طرح   ان کی مشفقانہ  طرز گفتگو نے قابلیت  کی دیوار ڈھا دی اور دوستانہ رویہ نے عمر کے فرق   کو  پاٹ دیا۔
اب عنوان تو یاد نہیں، لیکن انہوں نے اپنا لیکچر مکمل کیا۔ دوران لیکچر  بچوں نے پوری دلجمعی سے کان لگا کر سنا۔ ایک تو ان کا انداز ہی اتنا میٹھا اور دل کش تھا  دوسرا انہوں نے بچوں سے بالکل بچوں کی سطح  پر آکر بات کی۔ جس سے ہر کسی کی توجہ اور دلچسپی برقرار رہی۔  ہمارے پروگرام کے فورا بعد انہیں شاید سید مودودی انسٹی ٹیوٹ جانا تھا۔  اس لیے وہ فورا نکل گئے ۔ انہیں  مسجد کے دروازے  تک چھوڑنے میں اور میرے صدر صاحب آئے۔ صدر صاحب تو مجھ سے بھی زیادہ ان کے مداح تھے۔ ان کی جوتیاں خود اٹھا کر لائے اور سیدھی کر کے ان کے سامنے رکھیں۔
وقت گزرتا رہا۔ با رہا ان کے لیکچرز اور دروس سے استفادہ کیا۔ آخری دفعہ وہ ابھی پچھلے مہینہ  اجتماع عام سے پہلے ہمارے محلے کی مسجد میں اجتماع کی تیاریوں کے حوالے سے منعقدہ میٹنگ میں آئے۔  وہاں انہوں نے فرمایا کہ  باقی تیاریوں کے علاوہ، آپ تمام لوگ نفل نمازوں اور روزوں کا بھی اہتمام کریں۔  بلکہ  وہاں پر ا یک ذمہ دار نے بتایا کہ انہوں نے لاہور جماعت کے تمام ذمہ داران کو فون کر کے بھی یہی نصیحتیں کیں ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ رب العزت نے اس اجتماع عام کو جو قبولیت بخشی ہے وہ انہی کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔

Thursday, April 10, 2014

کارکن کی شادی

کارکن کی شادی


ناظم کے قلم سے

شادی کے مقدمات تو کب سے پورے تھے، بس اس گھڑی کا انتظار تھا جوآسمان میں اس مبارک بندھن کے واسطے مقرر تھی۔ خدا خدا کر کے وہ دن آیا جب کارکن مٹھائی کا ڈبہ اور شادی کا کارڈ لیے میری طرف آیا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق ہم اس کی دعوت ولیمہ مسنونہ میں شریک ہوئے۔ یہاں پہ یہ بتانا مفید ثابت ہو گا کہ کارکن سے ہماری شناسائی کو آنے والے مہینہ میں پورے ایک درجن سال ہو جائیں گے۔ ان بارہ سالوں نے زندگی پر ان گنت اثرات مرتب کیے۔ کچھ نمکین، چند کڑوے بہت سے میٹھے۔ آج شادی ہال میں کھانے کے انتظار میں بیٹھے ہوئے جب دلہا میاں سے پہلی ملاقات کا دل میں خیال آیا تو دماغ میں ایک فلم چل پڑی۔ ایک ایک کر کے وہ سارے سین آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے جب ناظم صرف ناظم تھا اور کارکن محض کارکن ہوا کرتا تھا۔

قصہ یہ ہوا کہ یہاں میری نارتھ سیکٹر سے ساؤتھ سیکٹر منتقلی ہوئی، وہیں کارکن نے شادباغ سے نیسپاک نقل مکانی کر لی۔ نیا نیا سیکٹر تخلیق ہوا تھا۔ تھوڑا سا کام تھا۔ افرادی قوت بہت ہی محدود تھی۔ ایک اندھیری رات کا ذکر ہے۔ میرے ساتھ ساؤتھ سیکٹر کے انچارج عاطف بھائی تھے جو اب خاصے بڑے پروفیسر صاحب ہو گئے ہیں اور ملائشیا پلٹ بھی ہیں۔ وہ مجھے سیکٹر کے آخری کونے میں لے کر گئے جہاں جا کر آبادی کا نام و نشان مٹنے لگتا تھا۔ سچی بات ہے کہ اگر ان کا ساتھ نہ ہوتا تو میں اکیلا کبھی اس طرف کا رخ بھی نہ کرتا۔ ویسے عاطف بھائی کو ہمیشہ میں نے بہادر ہی پایا ہے۔ بہادر ہونے کے ساتھ ساتھ عاطف بھائی کچھ لالچی بھی تھے۔ اور لالچ یہ تھا کہ ایک عدد نوجوان جو بے حد صلاحیتوں کا مالک ہے نیا نیا ساؤتھ سیکٹر کی حدود میں داخل ہوا ہے۔ اس کو فوراً قابو کرنا ہے اس سے پہلے کہ ویسٹ سیکٹر والے، جہاں کے ایک مشہور سکول میں اس نے داخلہ لیا ہوا تھا، اسے لے اڑیں۔ خیر ایک تو گھر ڈھونڈنے کی دشواری کہ مکمل پتہ پاس نہ تھا اور دوسرا موبائل فون کا زمانہ نہ تھا کہ کوئی رابطہ ہو سکتا۔ کئی گھروں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بالآخر ہم رات گئے مطلوبہ نوجوان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ چھوٹی سی ملاقات ہوئی۔ اور آئیندہ ایک دوسرے سے ملتے رہنے کا وعدہ لے کر ہم اٹھ گئے۔

یہ ملاقات خاصی کامیاب رہی۔ کارکن باقاعدہ طور پر ہماری لسٹ (ربط) میں شامل ہو گیا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد اجتماع عام تھا۔ اس اجتماع میں خان صاحب نے جب خانساموں کے مدمقابل تندور کے ساتھ اپنا بوریا بستر لگا لیا تو انہیں ہمارے انچارج عاطف بھائی کی بھی ضرورت محسوس ہوئی۔ چنانچہ عاطف بھائی ان کے ساتھ نتھی ہو گئے۔ اب عاطف بھائی کی جگہ ناظم کو ذمہ داریاں ادا کرنی پڑیں۔ ناظم خود چونکہ ابھی نیا نیا ناظم بنا تھا اور زیادہ کام سے گھبراتا تھا اس لیے اسے اچھے ساتھیوں کی تلاش ہوئی۔ ان میں ایک تو ویسٹ سیکٹر کے عثمان بھائی تھے اور دوسرا ہمارا کارکن، جس نے خود اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ کارکن نے بلا شبہ اس چھوٹی سی عمر میں اتنے بڑے بڑے کام کیے کہ سبھی عش عش کر اٹھے۔ اس کی ایک سے ایک بڑھ کر چھپی ہوئی صلاحیت آشکارا ہوئی کہ ناظم کا سارا اکیلا پن جاتا رہا۔

اجتماع عام کے بعد کارکن نے اپنا سکول تبدیل کر لیا اور گھر کے قریب ہی مزید تعلیم حاصل کرنے میں مگن ہو گیا۔ اس طرح ویسٹ سیکٹر کی لٹکتی ہوئی تلوار سے جان چھوٹی اور کارکن ہمہ وقت ساؤتھ سیکٹر کے کام کرنے لگ گیا۔ اس نے اپنے محلے میں کئی باصلاحیت اور ہنرمند افراد کو اپنے ساتھ ملایا۔ نئی اور تازہ کھیپ ہمارے ساتھ شامل ہوتی چلی گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ایک مضبوط حلقہ قائم ہو گیا۔
میٹرک کے بعد کارکن کو ایف سی کالج میں داخلہ ملا۔ یہ اس کے داخل ہونے سے کچھ عرصہ پہلے ہی حکومت کے کنٹرول سے واپس چرچ کو دیا گیا تھا۔ چنانچہ اسے اس نئی انتظامیہ جن میں کئی غیر ملکی اور غیر مذہب کے لوگ تھے واسطہ پڑا۔ ان دنوں ناظم اسے ملنے کے لیے خاص کر ایف سی کالج جایا کرتا تھا۔ جہاں کے وسیع سبزہ زار میں بیٹھ کر یہ دونوں چائے پیا کرتے تھے۔

ویسے تو کارکن ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ ہر پروگرام، ہر جلسہ، ہر جھگڑا، جہاں بلاؤ پہنچ بھی جاتا تھا۔ لیکن ناظم کو اندازہ تھا کہ اندرونی احتسابی شکنجے سے پہلو تہی کرنا مشکل ہے۔ اس لیے جب کارکن کو رکن بنانے کا کٹھن مرحلہ درپیش ہوا تو ناظم کے لیے یہ بہت صبر آزما اور مشکل کام تھا۔ مہینوں سوچ و بچار میں لگائے کہ کیا ترکیب لڑائی جائے۔ ناظم کو اعتراف ہے کہ اس نے اس سلسلے میں کچھ تو کارکن کے پہلے سے استوار بیرونی تعلقات کو استعمال کیا اور دوسرا مقامی طور پر سفارت کاری کے تمام ممکنہ حر بے اختیار کیے۔ اس سب کے باوجود ابتدائی کوششیں رائیگاں گئیں۔ دوسری مرتبہ پھر شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کسی نہ کسی طرح رکنیت کی درخواست منظور ہوئی۔ لیکن ناظم کو ہر وقت ڈھرکا لگا رہتا تھا کہ اب کچھ ہوا کہ اب۔۔۔۔

کارکن نے انہی دنوں اسلامک یونی ورسٹی میں داخلہ کے لیے فارم بھجوادیئے۔ دل تو نہیں کرتا تھا کہ کارکن ایک دن کے لیے بھی نظروں سے اوجھل ہو مگر زمینی حقائق کچھ ایسے بن گئے تھے کہ ہر وقت نوخیز رکن کے پیچھے نادیدہ قوتیں ہاتھ دھو کر پڑی رہتی تھیں۔ جب کارکن نے ناظم سے اسلام آباد جانے کی اجازت مانگی تو دل پر پتھر رکھ کر اجازت دی۔ دماغ نے کہا کہ کارکن کی بھلائی اسی میں ہے کہ اسے کچھ عرصہ کے لئے منظر سے دور کردیا جائے۔

کارکن بیچارے پر کئی سخت وقت بھی آئے۔ سچ ہے کہ اس دنیا میں جو بھی آیا اس نے سختی کا مزہ تو چکھا ہی ہے۔ زندگی میں اگر فرض کرو کبھی ایسا وقت نا بھی آیا ہو تو موت کی سختی سے کس کو انکار ہے؟ ایسا ہی ایک مشکل مقام تب تھا جب اس نے ایک سہہ پہر کو مجھے مسلم ٹاؤن بلایا۔ وہ ان دنوں طالب علم تو اسلامک یونی ورسٹی کا تھا مگر کسی خاص کام کے سلسلے میں لاہور آیا ہوا تھا۔ ویسے تو کسی کی تکلیف میں ہنسنا بری بات ہے مگر اس وقت اس نے اپنی جو پریشانی بتائی اس پر ہم دونوں کافی دیر تک لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔ ہمیں یہ اندازہ ہی نہیں ہو پایا کہ یہ پریشانی اپنے جلو میں کس طوفان کو لیے آر ہی ہے۔

اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد کارکن واپس لاہور آگیا اور نئے سرے سے اپنے مستقبل کی تعمیر میں لگ گیا۔ اگلا سال واقعتاً بڑی مشکل کا تھا۔ لیکن جیسے تیسے کارکن نے وہ سال نکالا یہ اسی کا حوصلہ ہے۔ حوصلے جن کے بلند ہوں، راستے خود ان کے آگے آگے کھلتے جاتے ہیں۔ یہ قول کارکن کی اس یک سالہ جدوجہد پر صادق آتا ہے۔ بلآخر اسے یو ایم ٹی میں داخلہ مل گیا اور اپنی پسند کی فیلڈ یعنی سوشل سائنسز اور اس میں اس نے میڈیا میں مہارت کو منتخب کیا۔

یہاں سے اس کی زندگی نے کروٹ لی اور اچھی خاصی لے لی۔ سب سے پہلے تو عینک کا فریم چینج ہوا پھر ٹرانسپیرنٹ شیشوں کی جگہ رنگین شیشوں نے لے لی۔ اور پھر ساری دنیا ہی رنگین ہو گئی۔ مگر عینک کا نمبر جو پہلے دن تھا وہی رہا۔

ناظم ان دنوں بھی کبھی کبھار اسے ملنے یو ایم ٹی جایا کرتا تھا۔ گراؤنڈ میں بیٹھ کر چائے اور برگر بھی چلتے تھے۔ سورج چاند سب پہلے ہی کی طرح گردش کر رہے تھے، چاروں موسم اپنے وقت پہ آتے، صبح اسی طرح نمودار ہوتی اور شام اسی طرح ڈھلکتی لیکن بھر بھی زندگی میں کچھ کمی سی تھی۔ ناظم ناظم نہ رہا تھا اور کارکن کارکن نہ رہا تھا کہ دونوں کو نظم کا پاس تھا۔ برسوں کا رشتہ اپنی نوعیت کو تبدیل کر چکا تھا۔

خیر زمانہ کبھی ایک سا بھی نہیں رہا۔  ناظم کو جیسا کہ دستور دنیا ہے، فراغت سے پہلے ایک سال کے لیے مالیات کا انچارج بنایا گیا۔ اور انہی دنوں کارکن شہر کے میڈیا سیل کو سنبھالے ہوئے تھا۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ وہ دونوں دوبارہ ایک چھت تلے اکھٹے ہوگئے ۔ روزانہ شام کو ملاقاتیں ہونے لگیں۔ زندگی میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں سما گئیں۔ ایک دن ناظم کو اپنے ٹیبل پر ایک خط ملا۔ کھول کر دیکھا تو وہ انچارج میڈیا سیل کی جانب سے کچھ فرمائیشیں تھیں جو انچارج بیت المال کو کی گئی تھیں۔ عام حالات میں کبھی اس طرح کی فارملیڑیز کی ضرورت نہ تھی بس یہ کارکن کی ان خاص اداؤں میں سے تھی جس کے آگے ناظم دل چھوڑے بیٹھتا تھا۔

ناظم کو یوں لگا کہ کارکن نے وہ سطریں میڈیا سیل کے لیٹر پیڈ پر نہیں، ناظم کے دل پر لکھ دی ہوں۔ زمان و مکان کی دوریاں بھی ان الفاظ کو دھندلا نہیں سکیں۔ کارکن آج بھی ناظم کے دل میں بستا ہے۔ بظاہر آج کارکن اور ناظم کے درمیان لاہور سے لے کر ڈی جی خان تک کا فاصلہ حائل ہے مگر دل میں رہنے والے تو کسی فاصلے پر نہیں ہوتے۔ خدا کرے کہ یہ چاہت ان دونوں کے درمیان اس وقت تک قائم رہے جب انسانوں کے اعمال کی میزان لگی ہو گی اور سورج سوا نیزے پر آگ برسا رہا ہوگا۔ کسی کو کسی کا ہوش نہ ہو گا۔ کہا جائے گا کہ دنیا میں جو لوگ اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے وہ عرش کے سائے تلے آجائیں کہ اس روز اس کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔

Friday, February 14, 2014

ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں

ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں 


احمد اویس 
              ستیاناس ہو مغربی تہذیب کا۔ اچھے بھلے لفظ کو اختلاف کی بھینٹ چڑھا دیا۔ معاملہ صرف پھول بیچنے والوں کا ہوتا یا غباروں والوں کے روزگار کا۔ تو سبھی لوگ غریبوں کی ہمدردی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ کچھ ایسا ہی چند سال پہلے ہوا جب عدالت کی جانب سے پتنگ بازی پہ پابندی لگنے کے خلاف غریب لوگ مظاہرے کیا کرتے تھے کہ ہزاروں غریبوں کا چولہا اسی خونی کھیل سے وابستہ ہے، اب کیا کریں زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ہمارا کاروبار تو مت چھینو،،،، ہمارے بچے فاقوں مریں گے۔ یہ اور بات کہ پتنگ بازی سے ہونی والی اموات تو دیکھنے سننے کو مل جاتی ہیں مگر اس پر پابندی سے خدا کا شکر کسی کی جان نہیں گئی۔۔۔۔ 
         
             مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب نے نا صرف الفاظ کے لغوی معنی بدل دئیے ہیں بلکہ ظاہری طور پر ان کا مفہوم بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب یہی  محبت جیسا شیریں لفظ اب ذرا عام استعمال کر کے تو دیکھیں۔ فورا دائیں بائیں والے چوکنے ہو جائیں گے۔ اگر آپ کی ظاہر بین نگاہ زیادہ دور اندیش نہیں تو الٹا یہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ کہاں وہ وقت تھا کہ شعرا حضرات پند و نصائح کی بات اس کے  پیرائے میں بیان کرتے تھے کہ بات میں بوجھل پن نہ رہے۔ سبق آموز لوک داستانیں اسی کے گرد گھومتی تھیں۔ صوفیا کرام خدا کی ابدی اور سچی محبت کو سمجھانے کے لیے یہی مثالیں دیا کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے بھی کبھی کہا تھا کہ 
بھلا نبھے گی  تری ہم سے کیونکر اے واعظ 
کہ ہم تو  رسم  محبت کو  عام  کرتے   ہیں 

              ویسے کچھ نڈر اور بے باک قسم کے لوگ تو محبت کا لفظ بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی کر لیتے ہیں۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر۔ ان کے نزدیک سچ تو یہ ہے کہ محبت کرنی تو ڈرنا کیسا۔۔۔ انہی لوگوں کے دم سے دنیا کی رنگینی برقرار ہے اور غریبوں کا چولہا جل رہا ہے۔  ایک دفعہ کسی رشتہ دار کا حج سے واپسی پر صبح کے وقت استقبال کرنے ایرپورٹ جا رہا تھا تو باوجود کوشش کے کوئی پھول والا نہیں ملا۔ آج جس وقت گوالے دودھ لے کر شہر پہنچتے ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ  پھولوں کی دکانیں سجی ہوئی ہیں۔ مزرع شب کے خوشہ چینوں کے لئے شاید ساری رات ہی  کھلی رہی ہوں۔۔۔ 
ادھر سرحد پار سے خبر آئی کہ بال ٹھاکرے کی تنظیم نے اس مغربی تہوار کے خلاف ملک بھر میں جگہ جگہ مظاہرے کیے۔ محبت کی علامتوں کو سر عام نذر آتش کیا گیا۔ کئی جگہوں پر ان کے کارکنوں نے اسیران محبت کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر  ڈنڈوں سے تواضع کے علاوہ ایک دوسرے سے کان بھی کھینچوائے۔ زبردستی پھولوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کر کے قیمتی پھول ضائع کر دئیے۔  ان کا موقف تھا کہ یہ انڈین کلچر  اور خاندانی نظام کے خلاف ہے۔ ممکن ہے کہ اس جسارت پر فوج ان کے مضبوط ٹھکانے ممبئی پر بمباری ہی کر دے۔  
                جب ہمارے اوپر الزام دھرا جاتا ہے کہ یہ تو ہیں ہی محبت کے دشمن۔۔۔ ہم فورا اپنا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نہیں نہیں ہم محبت کے دشمن  نہیں بلکہ ہمارے نزدیک محبت سارا سال کرنی چاہیے نہ کہ صرف ایک دن۔ بھلا یہ کیسی محبت ہے کہ جو بس ایک دن میں ہی ہو کر ختم ہو جاتی ہو۔۔۔ لو جی پھر اور کیا چاہیے۔۔۔ آپ سے تو ایک دن محبت کا برداشت نہیں ہوتا۔ سارا سال کیسے برداشت کریں گے؟؟ 

                ارے نہیں جناب آپ ہی تو غلط سمجھے ہیں۔ ہم سے زیادہ محبت کا پرچار کرنے والا کون ہے۔ ہم تو سچی محبت کا درس دیتے ہیں۔ وہ محبت جو ایک بیٹا اپنی ماں سے کرتا ہے۔ جو بہن بھائیوں میں ہوتی ہے۔ جو ایک خاندان کو جوڑ کر رکھتی ہے۔ جو دوستی کے رشتہ کی مٹھاس بڑھاتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر انسان کو اس کے محبوب رب سے آشنا کرتی ہے۔ بلکہ اگر یہ محبت نہ ہو تو  
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے 
مسلمان نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے 


Friday, February 7, 2014

ترکی میں اسلام پسندوں کی باہمی کشمکش

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ترکی میں اسلام پسندوں کی باہمی کشمکش؛ چند غور طلب پہلو


احمد اویس



            یونی ورسٹی کے چند طالب علموں اور کچھ چھوٹے تاجروں نے 1960 کی دہائی کےآخر میں مل جل کر  ایک ہاسٹل کی بنیاد رکھی۔ جہاں طلبا کو رہایش کے علاوہ اچھے اخلاق سکھلانے اور بری صحبت سے بچانے کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا یہ اس ہاسٹل کی خاص بات تھی۔ جلد ہی یہ سلسلہ دور دراز سے آئے ہوئے طلبا کے والدین کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان ہاسٹلوں میں زیر تربیت نوجوان بڑھتے چلے گئے اور انہوں نے اپنی زندگیوں کو نئی نسل کی بہترین اور مبنی بر اخلاق تعلیم کے لیے وقف کر دیا۔ ان لوگوں نے اپنے سکول کھولے ، ٹیوشن سنٹر بنائے اور معاشرے میں اسلام کی پیش کردہ اقدا رکو پروان چڑھانے میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔

ترکی جو کبھی خلافت عثمانیہ کا صدر مقام اور مسلم دنیا کا مرکز ہوا کرتا تھا، وہاں کی پر شکوہ مساجد میں تب سے کچھ عرصہ پہلے عربی میں اذان دینے تک پر پابندی تھی۔ ریاست مکمل طور پر سیکولر تھی۔ اسلام کو اجتماعی زندگی میں کوئی دخل نہ تھا۔ مذہب کی بنیاد پر  کوئی تنظیم قائم نہیں ہو سکتی تھی۔  اس ماحول میں ان لوگوں نے دعوت و تبلیغ کو اپنا منہج بنایا۔  بغیر کسی تنظیمی بنیاد کے یہ لوگ اسلام  کا پیغام دل سے دل تک پھیلاتے چلے گئے۔ ان  کا کوئی دفتر تھا نہ کوئی عہدہ  ،کوئی بڑا کوئی چھوٹا نہ تھا۔ بس ایک لگن اور جستجو تھی جو ان سب کو آپس میں جوڑے ہوئے تھی۔

 1980 کی دہائی میں ان لوگوں نے پہلے اخبار اور بعد میں اپنا ریڈیو اور ٹی وی چینل بھی کھول لیا۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد ترکی کا سب سے پہلا اخبار جو آن لائن ہوا وہ انہی لوگوں کی سوچ پر مبنی "روزنامہ زمان "تھا۔   یہ جریدے ترکی کے صف اول  میں شمار ہوتے ہیں۔ ملکی زبان  کے علاوہ دس مزید زبانوں میں بھی یہ اپنی خدمات دنیا بھر کے لوگوں کو فراہم کر رہے ہیں۔ ان سب کا مقصد بھی  وہی تھا کہ معاشرے میں گرتی ہوئی اقدار کو بچایا جائے۔

سال پہ سال گزرتے رہے۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل نا صرف ترکی کے اعلیٰ اداروں میں اپنی خدمات دینے لگے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اپنے ملک کا نام روشن کرنے میں دن رات مصروف ہو گئے۔ ساتھ کے ساتھ انہوں نے اپنے تعلیمی ادارے اور ہاسٹل دوسرے ملکوں میں بھی کھولنے شروع کر دیئے۔ دنیا کے 140 سے زائد  ممالک میں  آج ان  کے سکول چل رہے ہیں ۔ پچھلے دو عشروں سے یہ تعلیمی ادارے پاکستان کے کئی بڑے شہرو ں میں ہزار ہا بچوں کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم کےعلاوہ مذہبی اقدار سے آراستہ کر چکے ہیں۔ سینکڑوں ترک نوجوان مرد و زن اپنا دیس چھوڑ کر پاکستان میں  فروغ تعلیم کے اس مشن سے وابستہ ہیں۔

تعلیم و تربیت ہی ان کا اصل میدان ہے لیکن اس کے علاوہ خدمت خلق کے کاموں  میں بھی یہ کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ پاکستان میں زلزلہ متاثرین کی آباد کاری میں انہوں نے خاطر خواہ کام کیا۔ زلزلہ متاثرین کے علاوہ  جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرین کے لیے انہوں  کئی سو گھر بنا کر بھی دیئے۔ عید قربان پر گوشت کی تقسیم اور رمضان میں ہزاروں افراد کو افطار اس کے علاوہ ہیں ۔ پاکستان میں یہ لوگ اب تک آٹھ لاکھ سے زائد لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کر چکے ہیں ۔ صرف  چند سالوں میں مکمل ہونے والےمنصوبہ جات  کاتخمینہ 30ملین ڈالر سے زیادہ کا ہے۔  

یہ سب لوگ جو کسی باقاعدہ تنظیم کا حصہ نہیں بلکہ ترکی کی ایک روحانی  شخصیت فتح اللہ گولن کے افکار سے متاثر ہیں۔ ترکی کی عدالتوں میں ان پر کچھ عرصہ پہلے ملک کو سیکولر سے  "اسلامسٹ" سٹیٹ میں بدلنے کا الزام تھا چنانچہ  انہوں نے امریکا میں جلا وطنی کی زندگی  اختیار کر لی۔ انہیں پنجاب یونی ورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی دے رکھی ہے۔  اگرچہ یہ عملی سیاست سے دور ہیں مگر ترکی کی سیاست اور ریاستی اداروں میں ان کا اچھا خاصا وزن  موجود ہے۔  کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے اندر بھی موجود ہیں۔

ترکی کے مایہ ناز سائنسدان  نجم الدین اربکان نے 1969 میں قومی نظریہ (ترکی: Millî Görüş) پیش کیا۔ اپنی پہلی سیاسی جماعت "ملی نظام" کے نام سے قائم کی۔ اس سے پہلے وہ جرمنی سے ڈاکٹریٹ اورآٹوموبائل سیکٹر میں دقیق تحقیقات کرچکے تھے۔ان کی اس تحقیق اور تجربوں کی بدولت  ترکی اپنی پہلی گاڑی جو مقامی طور پر تیا ر کی گئی تھی، بنانے میں کامیاب ہوا۔  آج ترکی دنیا کا زیادہ گاڑیاں بنانے والا سولہواں اور یورپ کا چھٹا بڑا ملک ہے ۔ اور گاڑیوں کی ایکسپورٹ سے کثیر زرمبادلہ کما رہا ہے۔

اربکان کے والد خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں جج کے فرائض سر انجام دیتے رہے تھے۔ آپ خود سالہاسال تک استنبول کی یونی ورسٹی میں پڑھاتے رہے۔    ترکی کی ترقی خاص کر آٹو موبائل  سیکٹر میں اپنے وسیع بین الاقوامی تجربہ کی بنیاد پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔   انجن بنانے کی فیکٹری لگائی۔   ترکی کے تمام چیمبرز آف کامرس کی اجتماعی تنظیم کے سربراہ بھی رہے۔ 1969 میں سیاست کا آغاز کیا اور قونیہ سے اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ جلد ہی ان کی جماعت پر اسلام پسندی کا لیبل لگا کر پابندی لگا دی گئی۔  ترکی کی سیکولر فوج اور عدالتیں یکے بعد دیگرے اربکان کی ایک کے بعد دوسری قائم ہونے والی جماعتوں پر پابندی لگاتی چلی گئیں۔ خود کئی سال تک ان پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی رہی۔

1987 میں ان کی پارٹی( اس وقت رفاہ پارٹی کے نام سے وہ میدان سیاست میں موجود تھے) نے بلدیاتی انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی اور 1995 کے عام انتخابات میں یہ ترکی کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ نجم الدین اربکان ترکی کے پہلے اسلام پسند وزیر اعظم بنے۔ اگرچہ جلد ہی فوج نے ان سے استعفیٰ لے لیا لیکن انہوں نے اپنے مختصر دور حکومت میں ترکی کی معیشت کو پاؤں پہ کھڑا کرنے کے لیے بنیادی کام کیے۔ بیرونی قرضوں سے آزاد بجٹ پیش کیا۔ ترقی پذیر مسلم ممالک پر مشتمل تجارتی بلاک ڈی 8 (Developing Eightبنایا۔

             رفاہ پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد  فضیلت پارٹی  وجود میں آئی۔ اس کی ایک خاتون ممبر پارلیمنٹ نے سکارف اتارنے سے انکا ر کردیا تو وہ پارٹی ہی بین کردی گئی۔ اسی کے ایک رہنما  طیب اردگان نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنائی جو 2002 کے الیکشن میں فتح یاب ہوئی اور اس پارٹی نے اپنے پہلے وزیر اعظم کے طور پر عبد اللہ گل کو منتخب کروایا۔ ترکی کے فوجی چیف نے ان کی حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ بعد میں طیب اردگان نے وزیر اعظم کا عہدہ اور عبد اللہ گل نے وزارت خارجہ  کا قلم دان سنبھالا۔ عبد اللہ گل نے ترکی کے بیرونی دنیا سے تعلقات میں نئے دور کا آغاز کیا۔ یورپی یونین کی ممبرشپ جو ترکی کا ایک پرانا مسئلہ چل رہا تھا اس پر کافی پیش رفت کروائی۔ 2007 میں عبداللہ گل ترکی کے پہلے صدر بنے جن کی اہلیہ سکارف لیتی ہیں۔ عبداللہ گل مسلم اور غیر مسلم دنیا کے وہ واحد حکومتی سربراہ ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کے خلاف کاروائی پر باقاعدہ احتجاجی مراسلہ بھیجا۔

             جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی
(AKP)کے دور میں پہلی مرتبہ تعلیمی اداروں میں سکارف پہننےکی اجازت ملی۔ دستور میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ فوج کے  سربراہ کو حکومت نے اپنی صوابدید سے مقرر کیا۔ سابق سربراہ سمیت  کئی فوجی افسران کو حکومت کے خلاف بغاوت پرسزا ہوئی۔ معیشت کا پہیہ تیزی سے چلنے لگا۔ جب یورپ اور امریکا کسادبازاری کا شکار تھے تو بھی ترکی کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔  بیروزگاری میں کمی اور ذاتی کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے سرمایہ کاری بڑے پیمانے پر لائی گئی۔ نیٹو کا اہم اتحادی اور امریکا کے دباؤ کے باوجود افغانستان اپنی فوجیں بھیجنے سے انکار کیا۔ اسرائیل سے برسوں کے دوستانہ تعلقات کے باوجود سخت رویہ اپنایا۔ خاص طور پر فلسطینیوں کے محاصرہ کے خلاف امدادی جہاز بھیجا جس پر اسرائیلی فوج نے حملہ کر دیا ۔ اس قضیہ پراسرائیل کو معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ اور اسرائیل  20 ملین ڈالر ہرجانہ دینے پرتیار ہوا۔ بیرونی دنیا میں مسلم اور خاص کر خطہ کے عرب ممالک سے تعلقات میں گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔

             طیب اردگان نے مسلسل تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ سنبھالی ہے۔ وہ ترکی کی تاریخ کے مقبول ترین رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔معاشی اور سیاسی کامیابیوں  کے باوجود پچھلے کچھ عرصہ سے ترکی میں ان کے خلاف مظاہرے ہوئے اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ وزیراعظم کے عہدہ سے استعفیٰ دیں۔ زیادہ تر مخالفین ان سیکولر لوگوں پر مشتمل ہیں جو اردگان کو ترکی کے سیکولر آئین کے خلاف خطرہ سمجھتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں ان کے خلاف جو مظاہرے ہوئے ان کے بارے میں میڈیا میں یہ آیا کہ وہ گولن تحریک کے لوگ ہیں۔ وزیراعظم نے ان سے سختی سے نبٹنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اور گولن تحریک والوں نے اس پر وزیر اعظم کے خلاف میڈیا میں محاذ کھول لیا۔ جب کہ معاشرے کے عام لوگ اس کشمکش کو خود ترکی کے لیے اچھا نہیں سمجھ رہے۔

             بظاہر ان دونوں گروہوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں، دونوں ایک طویل عرصہ سے ترکی کے سیکولر ماحول میں اسلام کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ گو کہ ان کا دائرہ عمل مختلف ہے مگر ان دونوں کا اصل دشمن ایک ہی ہے جو سیکولرزم کے نام سے راستے میں کھڑا ہے۔ اپنے اپنے انداز میں، وقت اور حالات کی مطابقت سے ان دونوں نے کسی نہ کسی حد تک سیکولرزم سے مفاہمت کی ہوئی ہے۔ ترکی کے مخصوص حالات میں اردگان کو گولن تحریک اور گولن تحریک کو اردگان کی ضرورت ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی انھی لوگوں کی مدد سے حکومت بنانے اور فوج کو سیاست سے بیدخل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اسی طرح گولن تحریک کے مشن کی کامیابی کے لیے موجودہ حکومتی پارٹی سے بہتر کوئی اور نہیں ۔

جب صورتحال زیادہ گھنبیر ہونے لگی اور مغربی میڈیا نے ان اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا تو دونوں جانب سے برف پگلنا شروع ہوئی۔ فتح اللہ گولن نے حکومت کے خلاف مظاہرین سے لاتعلقی کا اعلان بھی کیا ہے اور اپنے پیروکاروں کو حکومت سے محاذ آرائی سے منع کر دیا۔ دوسری جانب حکومت نے بھی معاملات کو سلجھانے کا واضح عندیہ دیا ہے۔ اور نائب وزیراعظم نے خاص طور پر گولن تحریک کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے کی تردید کر دی ہے۔

             دنیا کے ہر جمہوری ملک میں حکومت کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ یہ ایک عام سی بات ہے۔ لیکن یہاں سوچنے کی یہ بات ہے کہ ترکی میں ان مظاہرین کو اتنی زیادہ شدت سے خصوصا ًمغربی میڈیا نے کیوں پیش کیا؟اس سے پہلے مصر میں چند ہزار افراد کی تحریک پر میڈیا نے اتنا شور مچایاکہ فوج نے حکومت کی اصلاح کے نام پر لاکھوں لوگوں کی مرضی سے منتخب ہونے والی اسلام پسندحکومت کو چلتا کیا۔مغربی دانشور اس نظریہ پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ ملکی دستور اور قانون کا مذہب سے کوئی  ذرا سا بھی تعلق ہو۔ انہیں اس بات پر بھی حذر پہنچتی ہے جب لوگ اسلام کو ملکی نظام کا بالادست قانون بنانے کی بات کرتے ہیں۔ وہ شہریوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے  انہیں مذہبی رسوم ادا کرنے کی بھرپور آزادی کی حمایت تو کرتے ہیں۔ لیکن اسلام کو اجتماعی زندگی میں وہ درجہ دینے کے روادار نہیں جس کے بغیر ایک مسلمان کا ایمان ہی نا مکمل ہے۔

  اس وقت "سیاسی اسلام" کی ناکامی کا جو ڈھنڈورا  پیٹا گیا ہے،  دنیا بھرمیں اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے اس کا ہدف ہیں۔ چاہے وہ مروجہ معنوں میں سیاست کر رہے ہوں یا نہیں۔ انہیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اسلام بحیثیت نظام اس زمانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ جو تنظیمیں  ملک کے نظم و نسق کو اسلام کے مطابق بدلنے کے لیے کوشاں تھیں انہیں جب اقتدار ملا  بھی تو وہ  ناکام رہیں۔لہذا جتنی آزادی تمہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لیے میسر ہے اسی پر اکتفا کرو۔  ہمیشہ کی طرح اس جنگ میں  بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ اندرونی طاقتوں کو بھی جانے میں یا انجنانے میں مدمقابل کیا گیا ہے۔ یہ اعلان جنگ کسی خاص ملک کسی خاص تحریک تک ہی محدود نہیں، ہر جگہ اللہ  کے دین  کے غلبہ کے لیے کام کرنے والے حضرات ان مشکلات کا شکارہیں۔  

تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کہانی ہر جگہ کی ایک ہی ہے۔ چاہے مصر میں منتخب حکومت کی برطرفی ہو، بنگلہ دیش میں سب سے بڑی اور مضبوط مذہبی اپوزیشن پر پابندیاں اور سزائیں ہوں۔ شام کےمسلمانوں پر ظلم و ستم ہوں۔ وسطی افریقہ اور برما میں مسلمانوں کا قتل و غارت ہو یا پاکستان میں پرائی جنگ لڑنے کے نتیجے میں امن و سکون کی بربادی ہو۔ ایسے میں ایک جیسے ذہن رکھنے والے لوگوں کو مل جل کر ہی اس مشترکہ دشمن سے نبٹنا چاہئے۔ لیکن اتحاد کی فضا قائم کرنا اس بارے میں بات کرنے سے کہیں مشکل ہے۔ یہ مسلم قیادتوں کا فرض ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کرتے ہوئے نئے سرے سے صفوں کو سیدھا کریں۔ اور اپنے فکری و تنظیمی اثاثوں کو صحیح سمت میں لگائیں تا کہ امت کو اس کے مثبت نتائج مل سکیں۔