Showing posts with label عالمی سیاست. Show all posts
Showing posts with label عالمی سیاست. Show all posts

Friday, February 7, 2014

ترکی میں اسلام پسندوں کی باہمی کشمکش

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ترکی میں اسلام پسندوں کی باہمی کشمکش؛ چند غور طلب پہلو


احمد اویس



            یونی ورسٹی کے چند طالب علموں اور کچھ چھوٹے تاجروں نے 1960 کی دہائی کےآخر میں مل جل کر  ایک ہاسٹل کی بنیاد رکھی۔ جہاں طلبا کو رہایش کے علاوہ اچھے اخلاق سکھلانے اور بری صحبت سے بچانے کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا یہ اس ہاسٹل کی خاص بات تھی۔ جلد ہی یہ سلسلہ دور دراز سے آئے ہوئے طلبا کے والدین کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ان ہاسٹلوں میں زیر تربیت نوجوان بڑھتے چلے گئے اور انہوں نے اپنی زندگیوں کو نئی نسل کی بہترین اور مبنی بر اخلاق تعلیم کے لیے وقف کر دیا۔ ان لوگوں نے اپنے سکول کھولے ، ٹیوشن سنٹر بنائے اور معاشرے میں اسلام کی پیش کردہ اقدا رکو پروان چڑھانے میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔

ترکی جو کبھی خلافت عثمانیہ کا صدر مقام اور مسلم دنیا کا مرکز ہوا کرتا تھا، وہاں کی پر شکوہ مساجد میں تب سے کچھ عرصہ پہلے عربی میں اذان دینے تک پر پابندی تھی۔ ریاست مکمل طور پر سیکولر تھی۔ اسلام کو اجتماعی زندگی میں کوئی دخل نہ تھا۔ مذہب کی بنیاد پر  کوئی تنظیم قائم نہیں ہو سکتی تھی۔  اس ماحول میں ان لوگوں نے دعوت و تبلیغ کو اپنا منہج بنایا۔  بغیر کسی تنظیمی بنیاد کے یہ لوگ اسلام  کا پیغام دل سے دل تک پھیلاتے چلے گئے۔ ان  کا کوئی دفتر تھا نہ کوئی عہدہ  ،کوئی بڑا کوئی چھوٹا نہ تھا۔ بس ایک لگن اور جستجو تھی جو ان سب کو آپس میں جوڑے ہوئے تھی۔

 1980 کی دہائی میں ان لوگوں نے پہلے اخبار اور بعد میں اپنا ریڈیو اور ٹی وی چینل بھی کھول لیا۔ انٹرنیٹ کی ایجاد کے بعد ترکی کا سب سے پہلا اخبار جو آن لائن ہوا وہ انہی لوگوں کی سوچ پر مبنی "روزنامہ زمان "تھا۔   یہ جریدے ترکی کے صف اول  میں شمار ہوتے ہیں۔ ملکی زبان  کے علاوہ دس مزید زبانوں میں بھی یہ اپنی خدمات دنیا بھر کے لوگوں کو فراہم کر رہے ہیں۔ ان سب کا مقصد بھی  وہی تھا کہ معاشرے میں گرتی ہوئی اقدار کو بچایا جائے۔

سال پہ سال گزرتے رہے۔ ان اداروں سے فارغ التحصیل نا صرف ترکی کے اعلیٰ اداروں میں اپنی خدمات دینے لگے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اپنے ملک کا نام روشن کرنے میں دن رات مصروف ہو گئے۔ ساتھ کے ساتھ انہوں نے اپنے تعلیمی ادارے اور ہاسٹل دوسرے ملکوں میں بھی کھولنے شروع کر دیئے۔ دنیا کے 140 سے زائد  ممالک میں  آج ان  کے سکول چل رہے ہیں ۔ پچھلے دو عشروں سے یہ تعلیمی ادارے پاکستان کے کئی بڑے شہرو ں میں ہزار ہا بچوں کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم کےعلاوہ مذہبی اقدار سے آراستہ کر چکے ہیں۔ سینکڑوں ترک نوجوان مرد و زن اپنا دیس چھوڑ کر پاکستان میں  فروغ تعلیم کے اس مشن سے وابستہ ہیں۔

تعلیم و تربیت ہی ان کا اصل میدان ہے لیکن اس کے علاوہ خدمت خلق کے کاموں  میں بھی یہ کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ پاکستان میں زلزلہ متاثرین کی آباد کاری میں انہوں نے خاطر خواہ کام کیا۔ زلزلہ متاثرین کے علاوہ  جنوبی پنجاب میں سیلاب سے متاثرین کے لیے انہوں  کئی سو گھر بنا کر بھی دیئے۔ عید قربان پر گوشت کی تقسیم اور رمضان میں ہزاروں افراد کو افطار اس کے علاوہ ہیں ۔ پاکستان میں یہ لوگ اب تک آٹھ لاکھ سے زائد لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کر چکے ہیں ۔ صرف  چند سالوں میں مکمل ہونے والےمنصوبہ جات  کاتخمینہ 30ملین ڈالر سے زیادہ کا ہے۔  

یہ سب لوگ جو کسی باقاعدہ تنظیم کا حصہ نہیں بلکہ ترکی کی ایک روحانی  شخصیت فتح اللہ گولن کے افکار سے متاثر ہیں۔ ترکی کی عدالتوں میں ان پر کچھ عرصہ پہلے ملک کو سیکولر سے  "اسلامسٹ" سٹیٹ میں بدلنے کا الزام تھا چنانچہ  انہوں نے امریکا میں جلا وطنی کی زندگی  اختیار کر لی۔ انہیں پنجاب یونی ورسٹی نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی دے رکھی ہے۔  اگرچہ یہ عملی سیاست سے دور ہیں مگر ترکی کی سیاست اور ریاستی اداروں میں ان کا اچھا خاصا وزن  موجود ہے۔  کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ترکی کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ کے اندر بھی موجود ہیں۔

ترکی کے مایہ ناز سائنسدان  نجم الدین اربکان نے 1969 میں قومی نظریہ (ترکی: Millî Görüş) پیش کیا۔ اپنی پہلی سیاسی جماعت "ملی نظام" کے نام سے قائم کی۔ اس سے پہلے وہ جرمنی سے ڈاکٹریٹ اورآٹوموبائل سیکٹر میں دقیق تحقیقات کرچکے تھے۔ان کی اس تحقیق اور تجربوں کی بدولت  ترکی اپنی پہلی گاڑی جو مقامی طور پر تیا ر کی گئی تھی، بنانے میں کامیاب ہوا۔  آج ترکی دنیا کا زیادہ گاڑیاں بنانے والا سولہواں اور یورپ کا چھٹا بڑا ملک ہے ۔ اور گاڑیوں کی ایکسپورٹ سے کثیر زرمبادلہ کما رہا ہے۔

اربکان کے والد خلافت عثمانیہ کے آخری دور میں جج کے فرائض سر انجام دیتے رہے تھے۔ آپ خود سالہاسال تک استنبول کی یونی ورسٹی میں پڑھاتے رہے۔    ترکی کی ترقی خاص کر آٹو موبائل  سیکٹر میں اپنے وسیع بین الاقوامی تجربہ کی بنیاد پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔   انجن بنانے کی فیکٹری لگائی۔   ترکی کے تمام چیمبرز آف کامرس کی اجتماعی تنظیم کے سربراہ بھی رہے۔ 1969 میں سیاست کا آغاز کیا اور قونیہ سے اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ جلد ہی ان کی جماعت پر اسلام پسندی کا لیبل لگا کر پابندی لگا دی گئی۔  ترکی کی سیکولر فوج اور عدالتیں یکے بعد دیگرے اربکان کی ایک کے بعد دوسری قائم ہونے والی جماعتوں پر پابندی لگاتی چلی گئیں۔ خود کئی سال تک ان پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی رہی۔

1987 میں ان کی پارٹی( اس وقت رفاہ پارٹی کے نام سے وہ میدان سیاست میں موجود تھے) نے بلدیاتی انتخابات میں تاریخی کامیابی حاصل کی اور 1995 کے عام انتخابات میں یہ ترکی کی سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔ نجم الدین اربکان ترکی کے پہلے اسلام پسند وزیر اعظم بنے۔ اگرچہ جلد ہی فوج نے ان سے استعفیٰ لے لیا لیکن انہوں نے اپنے مختصر دور حکومت میں ترکی کی معیشت کو پاؤں پہ کھڑا کرنے کے لیے بنیادی کام کیے۔ بیرونی قرضوں سے آزاد بجٹ پیش کیا۔ ترقی پذیر مسلم ممالک پر مشتمل تجارتی بلاک ڈی 8 (Developing Eightبنایا۔

             رفاہ پارٹی پر پابندی لگنے کے بعد  فضیلت پارٹی  وجود میں آئی۔ اس کی ایک خاتون ممبر پارلیمنٹ نے سکارف اتارنے سے انکا ر کردیا تو وہ پارٹی ہی بین کردی گئی۔ اسی کے ایک رہنما  طیب اردگان نے جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنائی جو 2002 کے الیکشن میں فتح یاب ہوئی اور اس پارٹی نے اپنے پہلے وزیر اعظم کے طور پر عبد اللہ گل کو منتخب کروایا۔ ترکی کے فوجی چیف نے ان کی حلف برداری کی تقریب کا بائیکاٹ کیا۔ بعد میں طیب اردگان نے وزیر اعظم کا عہدہ اور عبد اللہ گل نے وزارت خارجہ  کا قلم دان سنبھالا۔ عبد اللہ گل نے ترکی کے بیرونی دنیا سے تعلقات میں نئے دور کا آغاز کیا۔ یورپی یونین کی ممبرشپ جو ترکی کا ایک پرانا مسئلہ چل رہا تھا اس پر کافی پیش رفت کروائی۔ 2007 میں عبداللہ گل ترکی کے پہلے صدر بنے جن کی اہلیہ سکارف لیتی ہیں۔ عبداللہ گل مسلم اور غیر مسلم دنیا کے وہ واحد حکومتی سربراہ ہیں جنہوں نے بنگلہ دیش میں اسلام پسندوں کے خلاف کاروائی پر باقاعدہ احتجاجی مراسلہ بھیجا۔

             جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی
(AKP)کے دور میں پہلی مرتبہ تعلیمی اداروں میں سکارف پہننےکی اجازت ملی۔ دستور میں بنیادی تبدیلیاں کی گئیں۔ فوج کے  سربراہ کو حکومت نے اپنی صوابدید سے مقرر کیا۔ سابق سربراہ سمیت  کئی فوجی افسران کو حکومت کے خلاف بغاوت پرسزا ہوئی۔ معیشت کا پہیہ تیزی سے چلنے لگا۔ جب یورپ اور امریکا کسادبازاری کا شکار تھے تو بھی ترکی کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔  بیروزگاری میں کمی اور ذاتی کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے سرمایہ کاری بڑے پیمانے پر لائی گئی۔ نیٹو کا اہم اتحادی اور امریکا کے دباؤ کے باوجود افغانستان اپنی فوجیں بھیجنے سے انکار کیا۔ اسرائیل سے برسوں کے دوستانہ تعلقات کے باوجود سخت رویہ اپنایا۔ خاص طور پر فلسطینیوں کے محاصرہ کے خلاف امدادی جہاز بھیجا جس پر اسرائیلی فوج نے حملہ کر دیا ۔ اس قضیہ پراسرائیل کو معافی مانگنے پر مجبور کیا۔ اور اسرائیل  20 ملین ڈالر ہرجانہ دینے پرتیار ہوا۔ بیرونی دنیا میں مسلم اور خاص کر خطہ کے عرب ممالک سے تعلقات میں گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔

             طیب اردگان نے مسلسل تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ سنبھالی ہے۔ وہ ترکی کی تاریخ کے مقبول ترین رہنما کے طور پر سامنے آئے ہیں۔معاشی اور سیاسی کامیابیوں  کے باوجود پچھلے کچھ عرصہ سے ترکی میں ان کے خلاف مظاہرے ہوئے اور ان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ وزیراعظم کے عہدہ سے استعفیٰ دیں۔ زیادہ تر مخالفین ان سیکولر لوگوں پر مشتمل ہیں جو اردگان کو ترکی کے سیکولر آئین کے خلاف خطرہ سمجھتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں ان کے خلاف جو مظاہرے ہوئے ان کے بارے میں میڈیا میں یہ آیا کہ وہ گولن تحریک کے لوگ ہیں۔ وزیراعظم نے ان سے سختی سے نبٹنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اور گولن تحریک والوں نے اس پر وزیر اعظم کے خلاف میڈیا میں محاذ کھول لیا۔ جب کہ معاشرے کے عام لوگ اس کشمکش کو خود ترکی کے لیے اچھا نہیں سمجھ رہے۔

             بظاہر ان دونوں گروہوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں، دونوں ایک طویل عرصہ سے ترکی کے سیکولر ماحول میں اسلام کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ گو کہ ان کا دائرہ عمل مختلف ہے مگر ان دونوں کا اصل دشمن ایک ہی ہے جو سیکولرزم کے نام سے راستے میں کھڑا ہے۔ اپنے اپنے انداز میں، وقت اور حالات کی مطابقت سے ان دونوں نے کسی نہ کسی حد تک سیکولرزم سے مفاہمت کی ہوئی ہے۔ ترکی کے مخصوص حالات میں اردگان کو گولن تحریک اور گولن تحریک کو اردگان کی ضرورت ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی انھی لوگوں کی مدد سے حکومت بنانے اور فوج کو سیاست سے بیدخل کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اسی طرح گولن تحریک کے مشن کی کامیابی کے لیے موجودہ حکومتی پارٹی سے بہتر کوئی اور نہیں ۔

جب صورتحال زیادہ گھنبیر ہونے لگی اور مغربی میڈیا نے ان اختلافات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا شروع کر دیا تو دونوں جانب سے برف پگلنا شروع ہوئی۔ فتح اللہ گولن نے حکومت کے خلاف مظاہرین سے لاتعلقی کا اعلان بھی کیا ہے اور اپنے پیروکاروں کو حکومت سے محاذ آرائی سے منع کر دیا۔ دوسری جانب حکومت نے بھی معاملات کو سلجھانے کا واضح عندیہ دیا ہے۔ اور نائب وزیراعظم نے خاص طور پر گولن تحریک کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے کی تردید کر دی ہے۔

             دنیا کے ہر جمہوری ملک میں حکومت کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ یہ ایک عام سی بات ہے۔ لیکن یہاں سوچنے کی یہ بات ہے کہ ترکی میں ان مظاہرین کو اتنی زیادہ شدت سے خصوصا ًمغربی میڈیا نے کیوں پیش کیا؟اس سے پہلے مصر میں چند ہزار افراد کی تحریک پر میڈیا نے اتنا شور مچایاکہ فوج نے حکومت کی اصلاح کے نام پر لاکھوں لوگوں کی مرضی سے منتخب ہونے والی اسلام پسندحکومت کو چلتا کیا۔مغربی دانشور اس نظریہ پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں کہ ملکی دستور اور قانون کا مذہب سے کوئی  ذرا سا بھی تعلق ہو۔ انہیں اس بات پر بھی حذر پہنچتی ہے جب لوگ اسلام کو ملکی نظام کا بالادست قانون بنانے کی بات کرتے ہیں۔ وہ شہریوں کے حقوق کی بات کرتے ہوئے  انہیں مذہبی رسوم ادا کرنے کی بھرپور آزادی کی حمایت تو کرتے ہیں۔ لیکن اسلام کو اجتماعی زندگی میں وہ درجہ دینے کے روادار نہیں جس کے بغیر ایک مسلمان کا ایمان ہی نا مکمل ہے۔

  اس وقت "سیاسی اسلام" کی ناکامی کا جو ڈھنڈورا  پیٹا گیا ہے،  دنیا بھرمیں اسلام کی سربلندی کے لیے کام کرنے والے اس کا ہدف ہیں۔ چاہے وہ مروجہ معنوں میں سیاست کر رہے ہوں یا نہیں۔ انہیں یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اسلام بحیثیت نظام اس زمانے میں ناکام ہو چکا ہے۔ جو تنظیمیں  ملک کے نظم و نسق کو اسلام کے مطابق بدلنے کے لیے کوشاں تھیں انہیں جب اقتدار ملا  بھی تو وہ  ناکام رہیں۔لہذا جتنی آزادی تمہیں اپنے مذہب پر عمل کرنے کے لیے میسر ہے اسی پر اکتفا کرو۔  ہمیشہ کی طرح اس جنگ میں  بیرونی حملہ آوروں کے ساتھ ساتھ اندرونی طاقتوں کو بھی جانے میں یا انجنانے میں مدمقابل کیا گیا ہے۔ یہ اعلان جنگ کسی خاص ملک کسی خاص تحریک تک ہی محدود نہیں، ہر جگہ اللہ  کے دین  کے غلبہ کے لیے کام کرنے والے حضرات ان مشکلات کا شکارہیں۔  

تھوڑے بہت فرق کے ساتھ کہانی ہر جگہ کی ایک ہی ہے۔ چاہے مصر میں منتخب حکومت کی برطرفی ہو، بنگلہ دیش میں سب سے بڑی اور مضبوط مذہبی اپوزیشن پر پابندیاں اور سزائیں ہوں۔ شام کےمسلمانوں پر ظلم و ستم ہوں۔ وسطی افریقہ اور برما میں مسلمانوں کا قتل و غارت ہو یا پاکستان میں پرائی جنگ لڑنے کے نتیجے میں امن و سکون کی بربادی ہو۔ ایسے میں ایک جیسے ذہن رکھنے والے لوگوں کو مل جل کر ہی اس مشترکہ دشمن سے نبٹنا چاہئے۔ لیکن اتحاد کی فضا قائم کرنا اس بارے میں بات کرنے سے کہیں مشکل ہے۔ یہ مسلم قیادتوں کا فرض ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کا ادراک کرتے ہوئے نئے سرے سے صفوں کو سیدھا کریں۔ اور اپنے فکری و تنظیمی اثاثوں کو صحیح سمت میں لگائیں تا کہ امت کو اس کے مثبت نتائج مل سکیں۔

Monday, July 8, 2013

اسلام پسند پھر سے دوراہے پرہیں!

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلام پسند پھر سے دوراہے پرہیں!
احمد اویس
ڈاکٹر محمد مرسی  کے اقتدار کا ایک سال مکمل ہونے پر مصر کی افواج نے اندرونی اور بیرونی دباؤ کے سبب انہیں  معزول کر کے  گرفتار کر لیا۔ ان کے ساتھ ہی میڈیا میں گردش کرتی افواہوں کے مطابق اخوان المسلون کے سربراہ اور ان کی ٹیم کو بھی گرفتار کر کے اسی جیل میں بند کر دیا گیا جہاں پر مصر کے عوام پر بد ترین آمریت مسلط کرنے والے سابق صدر حسنی مبار ک کو رکھا گیا تھا۔ جیل کے باہر جیسے  حسنی مبارک کے چلے جانے پر عوام خوشی سے بے قابو ہوتے جا رہے تھے اسی سے ملتے جلتے ردعمل کا اظہار عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر مرسی کے جانے پر بھی کیا جا رہا ہے۔
دنیا بھر کے تجزیہ کار اپنے اپنے انداز سے اس پر تبصرے کر رہے ہیں۔ مغرب اور مغرب کے ہم پیالہ دانشور اخوان المسلون پر  ناتجربہ کاری ، غلط حکمت عملی  ، پارٹی   پالیسیوں کا حکومت پر اثر انداز  ہونا، معیشت کا عدم استحکام اور خارجہ پالیسی کی ناکامی وغیرہ وغیرہ جیسے الزامات لگا رہے ہیں۔ جب کہ مذہب سے دلچسپی رکھنے والے رہنما  سارا ملبہ امریکا اور اسرائیل پر ڈال کر بری ذمہ ہو رہے ہیں۔ بات کوئی بھی ہو، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس سقوط  سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو صدمہ پہنچا اور اسلام کو جمہوری اور دستوری انداز میں نافذ کرنے کے راستے مزید مشکل اور فکری طور پر مبہم ہو گئے ہیں۔
اخوان المسلون دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے  زیادہ عمر اور تجربہ رکھتی ہے۔  ایک طویل عرصے تک اسے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے کارکنوں نے اپنے عزم اور حوصلے پست نہیں ہونے دئیےاور   حکومت قائم کر کے یہ دکھا دیا کہ سب مزاحمتیں صبر اور جہد مسلسل سے بالآخر دم توڑ دیتی ہیں۔ اخوان کے کارکنوں پر جو ظلم و ستم جیلوں کے اندر اور باہر ڈھائے گئے ہیں وہ  انسانی دنیا کو درندوں کی آماجگاہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ اخوان نے نا صرف مصر کے حالات کو بدلنے میں خاطر خواہ حصہ ڈالا بلکہ پورے عالم عرب میں اپنی ذیلی تنظیموں کے ذریعے اپنے پیغام کو ہر درد دل رکھنے والے فرد تک پہنچایا۔ ان کے طریقہ کار  کی بنیاد  شروع ہی   سے دعوت اور خدمت رہی ۔ البتہ ماضی میں  جب جبر سہتے سہتے   حد ہو گئی تو اخوان کے کچھ  نوجوانوں نے طاقت کے ذریعے بھی حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن تنظیم کے مثالی نظم و ضبط  نے انہیں واپس دعوتی اور دستوری جدوجہد پر آمادہ کر لیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ باب مکمل بند ہو گیا جب ہی تو مصر کے عوام نے اپنی آزاد رائے کا وزن اخوان کے پلڑے میں ڈالا۔
یہاں ایک دفعہ پھر غور و فکر کرنے والے اسلام پسندوں کو یہ مرحلہ درپیش ہے کہ آخر اخوان کی تحریک میں کیا سقم رہ گیا تھا کہ انہیں ایک سال میں ہی مسترد کر دیا گیا۔ کیا بنیادی طور پر  یہ بات ہی غلط ہے کہ جمہوریت  کے راستے اسلام آ ہی نہیں سکتا؟  یا فوج کی مدد کے بغیر اسلامی انقلاب جڑ نہیں پکڑسکتا۔ الجزائر کی فوج کی جانب سے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے  کے بعد  مصر کی فوج  نے اس شبہ کو مزید تقویت دی ہے کہ اسلام کی راہ میں رکاوٹ دراصل مسلم ممالک کی افواج ہیں۔ جن کا سارا ناک و نقشہ  مغرب نے اپنی ضرورتوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ترتیب دیا ہے۔یا  اگر اسلام پسند ملک کے اندر کے  اداروں اور گروہوں  کو قابو کر بھی لیتے ہیں تو بیرونی حملہ آوروں سے مزاحمت کیسے کریں گے؟ جب کہ مسلم ممالک کا کوئی اتحاد غیر مسلموں سے بچاؤ کے لیے موجود نہیں ہے۔ طالبان  کا عروج و زوال اس کی مثال ہے۔ عالم اسلام میں  یہ مکتبہ فکر بھی  مقبول ہے کہ حکومت سازی  کے لئے جہدو جہد کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ حکمران تو عوام کا عکس ہوتے ہیں۔ اچھے اعمال کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انعام کے طور پر اچھے حکمران عطا کر دیتے ہیں۔ تبلیغی جماعت  سے وابستہ لوگ ان ساری چیزوں  کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں۔ گو کہ ان کا بظاہر کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے لیکن معاشرے میں ان کا وزن نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں۔
ہمارا نقطہ نظر کوئی بھی ہو، ہم سب مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کسی ایک ملک میں یا کسی ایک تنظیم کی ناکامی اسلام کی ناکامی نہیں ہے۔ اسلام کو تو بہرحال  پوری دنیا میں غالب آنا ہے۔ اسلام کے نفاذ کے جتنے راستے بھی  بیان کیے جاتے ہیں چاہے وہ  طاقت کےحصول کے بعد میدان جہاد سے متعلق ہوں یا محض دعوتی اسلوب تک ہی بات ختم ہو جاتی ہو،سیکولر لوگوں  کے ساتھ مفاہمت ہو یا مذہبی طبقات  کا اکٹھ  ہو ان سب کا تھوڑا بہت تجربہ پچھلی دو دہائیوں میں  دنیا کے مختلف خطوں میں تقریبا ہو چکا ہے۔ ان کے کیا نتائج برآمد ہوئے ہیں اور کہاں کہاں کمزوری رہ گئی  ہے  ان کو مدنظر رکھتے ہوئے وقت کے حالات کے مطابق کیا لائحہ عمل ترتیب دینا چاہئے یہ آج دنیا بھر کی تحریک اسلامی کے لیے اہم سوال ہے  اور اسے عمل کے قالب میں ڈھالنا اصل چیلنج ہے۔

(یہ تحریر قلم کارواں بلاگ پر 7 جولائی 2013ء  کی اشاعت میں شائع ہو چکی ہے۔ http://www.qalamkarwan.com/2013/07/islam-pasand-daorahay-par.html)

Friday, May 10, 2013

پاکستان دشمنی ایوارڈ----معارف فیچر


بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پاکستان دشمنی ایوارڈ
احمد اویس
سانحہ مشرقی پاکستان کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا اور اس کے اسباب پر تو خاطر خواہ مواد دستیاب ہے۔ مگر اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سقوط ڈھاکا کو بھارت، روس اور برطانیہ سمیت دیگر عالمی قوتوں کی مدد کے بغیر سر انجام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ شیخ مجیب نے متعدد مرتبہ برملا اعتراف کیا کہ بھارت کی مدد کے بغیر بنگلہ دیش نہیں بن سکتا تھا۔ خود اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مئی 1971ء ہی میں مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش قرار دے دیا۔ کچھ عرصہ پہلے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی میں خدمات سرانجام دینے والے غیر ملکیوں کے اعزاز میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شیخ حسینہ نے تسلیم کیا کہ ہم ان غیر ملکی دوستوں کی عسکری مدد کے بغیر آزادی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
بنگلہ دیش بنانے میں سب سے بڑا بیرونی ہاتھ بلاشبہ بھارت کا ہے اور اس کے اسی کردار ہی کی بدولت، 40 سال گزرنے کے بعد، اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ بنگلہ دیش کے دوستوں کو یاد کیا جائے اور انہیں آزادی کی جدوجہد میں کام کرنے پر اعزاز سے نوازا جائے، تو بنگلہ دیش کے سب سے بڑے قومی ایوارڈ کی حق دار بھارت کی یہی سابق وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی قرار پائیں۔ جی ہاں! وہی اِندرا گاندھی، جنہوں نے مشرقی پاکستان میں پہلے دہشت گرد ’’مکتی باہنی‘‘ اور بعد میں باقاعدہ بھارتی افواج داخل کر کے قتل و غارت گری کا بازار گرم کر دیا تھا۔ اُس وقت پاکستان کو دو لخت کرنے کے لیے جتنی سازشیں وہ کر سکتی تھیں، انہوں نے کیں تاکہ بھارت ماتا کے دو ٹکڑے کرنے کا جو ناقابل معافی ’’جرم‘‘ قائداعظم سے سرزد ہوا تھا، اس کا بدلہ لے لیں۔
بنگلہ دیش میں روزِ اول سے خارجہ پالیسی اور معاشی پروگرام، بھارت کے زیرِ اثر بنتا اور آگے بڑھتا رہا۔ عام بنگالی مسلمان، بھارت کا طفیلی بن کر جینے کا مخالف ہے۔ مذہبِ اسلام سے وابستگی بنگال کی پرانی شناخت ہے۔ اسی بنیاد کو کمزور کرنے کے لیے وہاں مختلف حیلوں بہانوں سے اسلام پسندوں کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کا وجود حکومت کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکا ہے، جنہیں کچلنے کے لیے وہ بے تاب نظر آتی ہے۔ ان دنوں بنگلہ دیش کے اپوزیشن رہنماؤں کو دی جانے والی سزائوں کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ بھارت نوازی اور پاکستان دشمنی کو مزید فروغ دینے کے لیے، انہوں نے بنگلہ دیش کی ’’جنگ آزادی‘‘ میں حصہ لینے والے بیرون ممالک کے دوستوں کو اکٹھا کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ جس کے لیے پانچ سو سے زائد افراد کی فہرست بنائی گئی ہے۔ اب تک مختلف مراحل میں یہ اعزاز 277؍ افراد اور انجمنوں کو دیا گیا ہے، جن میں اکثریت بھارت کے سیاست دانوں اور افواج کے ذمہ داران کی ہے۔ اسی فہرست کے مطابق پہلی مرتبہ 13؍ پاکستانیوں کو بھی ایوارڈ ملا۔
13؍ پاکستانی جن کو بنگلہ دیش ایوارڈ سے نوازا گیا:
1۔ میر غوث بخش بزنجو (سیاست دان)
2۔ احمد سلیم (کارکن انسانی حقوق)
3۔ طاہرہ مظہر علی خان (کارکن انسانی حقوق)
4۔ ظفر ملک (وکیل)
5۔ پروفیسر وارث میر (استاد و صحافی)
6۔ ملک غلام جیلانی (سیاست دان)
7۔ فیض احمد فیض (صحافی)
8۔ حبیب جالب (شاعر)
9۔ ڈاکٹر اقبال احمد (دانشور)
10۔ انور پیرزادہ (سندھی شاعرو صحافی)
11۔ قاضی فیض عیسیٰ (سیاست دان)
12۔ بیگم نسیم اختر (سیاست دان)
13۔ شمیم اشرف (فلم ساز اور سیاست دان)
] نامزد ایوارڈ یافتگان کے ایوارڈ، ان کی طرف سے جن لوگوں نے وصول کیے ان میں: میر غوث بخش بزنجو کا ایوارڈ اُن کے صاحبزادے میر حاصل بزنجو، پروفیسر وارث میر کا اُن کے صاحبزادے حامد میر، ملک غلام جیلانی کا اُن کی صاحبزادی عاصمہ جہانگیر، فیض احمد فیض کا اُن کی صاحبزادی سلیمہ ہاشمی، حبیب جالب کا اُن کی بیٹی طاہرہ جالب نے وصول کیا۔ [
(بحوالہ: روزنامہ ’’اسٹار‘‘ ڈھاکا، بنگلہ دیش۔ 25 مارچ 2013ء)

ایک عام محب وطن پاکستانی کے لیے یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ وہ ایوارڈ جو بھارت کے جرنیلوں کو پاکستان کے مشرقی بازو پر حملہ و قبضہ کرنے پر اظہارِ تشکر کے لیے دیا جا رہا ہو، وہ کسی پاکستانی کو بھی ملے، اور وہ لے لے۔ لیکن اس دنیا میں المیے تو روز روز جنم لیتے ہیں۔ چنانچہ ہمارے چند پاکستانی نہ جانے کیا سوچ کر بڑی خوشی خوشی یہ ایوارڈ وصول کر آئے۔ اسی تقریب میں افواجِ پاکستان سے ہتھیار ڈلوانے والے بھارتی جنرل جگجیت سنگھ اروڑا کے لیے بھی یہی اعزاز رکھا گیا تھا۔ پاکستان میں چند روز بعد بننے والی ایک نگران صوبائی وزیر صاحبہ نے تو وہیں کھڑے کھڑے، پاکستان کی باقاعدہ طور پر بنگلہ دیش سے معافی مانگنے کا مطالبہ کرکے تقریب کی انتظامیہ کو باور کروادیا کہ ان کا ایوارڈ دینا رائیگاں نہیں گیا۔
بنگلہ دیش کی 1971ء کے سانحہ کی وجہ سے قومی شناخت گومگو کی حالت میں ہے۔ ایک طرف وہ قائداعظم کے ساتھیوں، مولوی فضل الحق اور حسین شہید سہروردی کو اپنا ہیرو قرار دیتے ہیں، جنہوں نے انگریزوں اور ہندوئوں کے جبر سے بنگالیوں کو آزادی دلائی تھی اور دوسری طرف اندرا گاندھی اور جنرل اروڑا بھی ان کے عظیم قومی ہیرو ہیں، جنہوں نے قائداعظم کے پاکستان کو توڑنے میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔ اسی ذہنی کیفیت کی وجہ سے موجودہ بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنا دورۂ اسلام آباد عین آخری لمحات میں منسوخ کر دیا اور شرط رکھ دی کہ پہلے پاکستان بنگالیوں سے معافی مانگے۔ حالانکہ خود ان کے والد شیخ مجیب الرحمن نے کبھی اس قسم کا غیر منطقی مطالبہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر اپنا دورہ منسوخ کیا تھا۔
اسی طرح جن پروفیسر صاحب کو بنگلہ دیشی جنگ آزادی میں معاونت پر ایوارڈ دیا گیا ہے وہ اُس وفد میں شامل تھے جو 1971ء میں حالات کی صحیح تصویر دیکھنے اور اپنے جذبات سے بنگالی بھائیوں کو آگاہ کرنے کے لیے عین عسکری آپریشن کے دوران مشرقی پاکستان کا دورہ کرنے گئے تھے۔ 1971ء کے اسی وفد میں شامل طلبہ کے منتخب قائدین نے سقوط ڈھاکا کے بعد ’’بنگلہ دیش نامنظور تحریک‘‘ چلائی تھی۔ یہ تحریک وطنِ عزیز میں چلنے والی سیاسی تحریکوں میں بلاشبہ اپنا تاریخی مقام رکھتی ہے۔ 1972ء اور 1973ء میں ملک کے تمام تعلیمی ادارے ’’بنگلہ دیش نامنظور‘‘ کے نعروں سے گونج رہے تھے۔ نوجوانوں کے لبوں پر یہی نعرہ تھا۔ اس تحریک کے مؤثر ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ خود ذوالفقار علی بھٹو (اُس وقت کے صدر پاکستان، بعد میں وزیراعظم) نے بھی کہا کہ اگر آپ کوبنگلہ دیش نامنظور ہے تو مجھے بھی بنگلہ دیش نا منظور ہے۔ تو بنگلہ دیشی وزیراعظم صاحبہ اسی وفد کے دیگر ارکان کو کس قسم کے ایوارڈ سے نوازنے کا ارادہ رکھتی ہیں؟
اپنے ملک میں اپنے ہی شہریوں پر اپنی فوج کے ذریعے سے قابو پانا کوئی دانش مندی نہیں۔ لیکن حیرت ہے ان لوگوں پر کہ جو پاکستانی افواج کے بنگلہ دیش سے معافی مانگنے پر اصرار کرتے ہیں، مگر انہیں بلوچستان، سوات اور قبائلی علاقہ جات میں آپریشن کے ضرر رساں نقصانات نظر نہیں آتے۔ اسی طرح انہیں انصاف اور انسانی حقوق کا علم بردار ہونے پر فخر ہوتا ہے لیکن انہیں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے 1971ء کے واقعات کی یک رخی تصویر کشی پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ نہ ہی انہیں شیخ حسینہ کی انتقامی کارروائیوں اور حزب اختلاف کی آواز کچلنے پر کوئی خلش محسوس ہوتی ہے۔ بنگلہ دیش میں نام نہاد جنگی جرائم کے مقدمات میں انصاف کے بنیادی تقاضوں کی پامالی پر بھی پاکستان کے یہ نام نہاد حقوقِ انسانی کے چیمپئن خاموش ہیں۔ حالانکہ اس سارے عمل کی مذمت دنیا کے بیشتر ممالک، بشمول اقوام متحدہ بھی کر چکے ہیں۔ اِن بدنامِ زمانہ خصوصی عدالتوں کی کارروائیاں اتنی زیادہ غیر منصفانہ اور جانب دارانہ ہیں کہ کوئی بھی انصاف پسند انسان ان کی تائید نہیں کرتا، نہ کر سکتا ہے۔ مگر اس ظالم بنگلہ دیشی حکومت سے ایوارڈ لینے میں ہمارے ’’پاکستانی‘‘ روشن خیالوں کو کوئی عار نہیں ہوتی۔
24 مارچ 2013ء کو، جب ڈھاکا میں 13؍ پاکستانیوں کو بھی، پاکستان کو دولخت کرنے والوں کے اعزاز میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں ایوارڈ سے نوازا جارہا تھا، اس سے ٹھیک 73 سال پہلے 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک (موجودہ مینار پاکستان پارک) میں شیربنگال مولوی فضل الحق کی قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی۔ ایسے میں کچھ لوگوں کا یہ کہنا معقول لگتا ہے کہ قائداعظم کا دو قومی نظریہ ایک مرتبہ پھر خلیج بنگال میں غرق ہو گیا اور اِن ’’ایوارڈ یافتہ‘‘ پاکستانیوں کے تعاون سے غرق ہوا۔
(یہ تحریر پندرہ روزہ معارف فیچر کراچی کی  یکم مئی 2013ء  کی اشاعت میں شائع ہو چکی ہے۔      http://irak.pk/2013/may-1st-2013/1533-pakistan-enmity-awards.html )