Thursday, January 24, 2013

میر پور کا اجنبی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

میر پور کا اجنبی
احمد اویس
کشمیر اور پنجاب کی سرحد پر دریائے جہلم کے کنارے آباد میر پور شہر کئی حوالوں سے جانا جاتا ہے۔ وہاں کی بلند و بالا تجارتی عمارات، کشادہ شاہراہیں، خوبصورت اور جدید طرز کے بنگلوں کو پاکستان کے کسی بھی بڑے شہر سے مقابلہ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ دلفریب نظاروں اور وادی کشمیر جنت نظیر کے دروازہ کی حیثیت سے تو یہ ہر دوسری جگہ کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔ پردیس میں کوئی اور ملے نہ ملے میر پور سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد ضرور مل جائے گا۔ ایک لاکھ سے زاید آبادی کو اپنے اندر سموئے ہوئے یہ حضرت میاں محمد بخش ؒ کی سرزمین ہے۔
میں ابھی وہاں کے کرکٹ سٹیڈیم میں ہونے والے شہید کے جنازے سے لوٹا ہوں۔ شہر کی رنگینیاں اور شہید کی حیات مبارکہ کی جھلکیاں مجھے بار بار ایک بے جوڑ سا موازنہ کرنے پر اکسا رہی ہیں۔ مجھ جیسا ایک نشیب دنیا کا اسیر شخص آخرت کے راہیوں کے نقوش پا کو حیرت سے ہی تک سکتا ہے۔ لیکن اتنا تو باآسانی جان سکتا ہوں کہ خدا کی راہ میں جان دینا،اونچے مرتبہ کے حامل مردان کار کا ہے۔ایسے عظیم لوگ مر کر بھی زندہ رہتے ہیں۔ کسی کو شعور ہو، نا ہو رب کی یہی گواہی ہے۔
شہید کو میں نے کبھی دیکھا تک نہیں، وہ سامنے آجائیں تو پہچانوں بھی نہیں۔ مگر ان کے گھر کی بیٹھک کے ایک گوشے میں بیٹھے مجھے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ادھر ہی مہمانوں کی آؤ بھگت میں مصروف ہیں۔ کبھی وہ اس کمرے سے اندر کمرے میں ، کبھی باہر باغیچہ میں استقبال اور کبھی باہر گیٹ پر الوداع کہتے۔ لوگ آجا رہے تھے۔ آہستہ آہستہ کمرا بھرتا چلا گیا۔ میں سرکتا سرکتا کونے میں ہوتا گیا۔ آنکھوں میں تیرتی نمی بار بار مجھے یاد دلا رہی تھی کہ آخر تمہارا شہید سے کیا رشتہ ہے کیا دوستی ہے۔ سب رشتوں سے بڑھ کر سب دوستیوں سے عزیز۔ میں ان کے ایمان کا ساتھی ہوں!
شہید کے والد محترم اپنے اطمینان اور سکینت بھرے چہرے سے ممتاز دکھائی دے رہے تھے۔ ہر فرد کو ہنستے ہوئے ملنا۔ حال احوال پوچھنا۔ جس بوڑھے باپ  کا جوان بیٹا دنیا سے چلا جائے  وہ ایسا تو دکھائی نہیں دیتا۔ لیکن کمانڈر صاحب کے تو سب سے چھوٹے بیٹے کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوئی تھی۔ اس کو وہ نعمت ملی تھی جس پر ہر مسلمان بجا طور پر فخر کر سکتا ہے۔ یہ انہی کو زیب ہے آخر وہ ایک شہید کے باپ ہیں۔
شہید کا نام پہلی مرتبہ ایک شاعر کی حیثیت سے میرے سامنے آیا۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے قبیلہ کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اپنے فن کا بہترین استعمال کیا۔ سکول کے زمانے سے نظمیں لکھنا شروع کیں۔ کالج اور انجینئرنگ یونیورسٹی میں ان کا یہ ذوق کہیں زیادہ ترقی کر چکا تھا۔ اور میدانوں میں پہنچ کر تو۔۔۔۔ وہ ایک عمدہ اور نفیس شاعر  اور منفرد نثر نگار تھے۔ نثر میں نظم کا سا انداز لیے ہوئے بات  پوری حساسیت کے ساتھ مخاطب کے دل میں اترتی چلی  جاتی تھی۔
خوشخبری ہو ْْاجنبیوںٗ کے لیے، پہلی مرتبہ انہی کے قلم سے معلوم ہوا کہ اس مضمون کی بھی کوئی حدیث پائی جاتی ہے۔ پھر ایک گز چپہ زمین کو حملہ آوروں سے چھڑوانے کے لیے جہاد کے فرض عین ہونے پر علمائے امت کا اتفاق بھی انہی کی وساطت سے پتہ چلا۔ ولاء و براء جیسی اصطلاحات کا علم بھی ان کی تحریر پڑھ کر ہوا۔ نجانے کتنی بھولی بھٹکی باتیں یہ شہر اماں کے باسیوں کو  یاد دلاتے چلے گئے۔
عشق حقیقی کے راگ الاپتی، رب  اور رب کے خوش نصیب بندوں سے محبت سکھاتی شاعری۔ حرم کی ابابیلوں کی ترجمانی کرتی ہوئی اور کفر کے مقابلہ پر بر سر پیکار مجاہدین کو ابھارتی ہوئی۔ قرآنی آیات، احادیث اور تاریخ کے واقعات سے پروی ہوئی شاعری۔ جیسے وہ خود تھے ویسے ہی ان کی شاعری تھی۔ ایک آزاد دنیا کے آزاد فرد۔
اہل تصوف باطنی اصلاح اور خدا اور خدا کی مخلوق سے محبت کا ہمیشہ درس دیتے رہے ہیں۔ شریعت کو  بالادست رکھنا  ہمیشہ سے اہل حق میں سے ہونے کی نشانی رہی ہے۔ صوفیا نے سچے عقاید، اچھے اعمال، پاک دل اور فرماں بردار نفس کی ہمیشہ تلقین کی ہے۔ شہید کی زندگی اور شاعری اس کا عملی ثبوت تھی۔ وہ برصغیر کے مشہور صوفی سلسلہ سے حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب مد ظلہُ  کے واسطے سے جڑے ہوئے تھے۔
اسلام اور کفر کا پہلا معرکہ رمضان اور جہاد کے مشترکہ عنوان سے سجا ہے۔ راتوں کو اپنے رب کے حضور سجدہ ریز تو دن میں رب کے دشمنوں سے نبردآزما۔ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شہید نے غسل سے پہلے ہی جام شہادت نوش فرمایا تو انہیں غسل دینے کے لیے رب ذوالجلال کی جانب سے انتظام کیا گیا۔ امید ہے کہ افطار کی کھجور ہاتھ میں تھامے شہید کی افطاری کا بھی انتظام ان کے پیارے رب نے اپنے پاس سے کیا ہوگا۔ کیا ہی اچھی افطاری ہے اور کتنا ہی اچھا ہے وہ روزہ دار۔ قابل فخر! قابل رشک!!
ایک صاحب پشاور سے آئے ہوئے تھے کہنے لگے کہ شہید کا قرآن سے گہرا تعلق تھا۔ وہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں کو بھی قرآن سے جوڑ دیتے تھے۔  شہادت کے وقت وہ بھی اور ان کی اہلیہ بھی حفظ قرآن کی سعادت سے بہرہ ور تھے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ان کے ایک استاد محترم اپنے ہونہار شاگرد کی باتیں بتا رہے تھے۔ وہ جب میرے پاس آتا اور اپنی اوراپنے دوستوں  کی کارکردگی دکھاتا تو اس میں قرآن سے تعلق کا ایک بڑا حصہ ہوتا تھا۔ یقیناً اپنے رب سے ملاقات کے امیدواروں کا سب سے بڑا توشہ تو قرآن ہی ہے۔
حافظ صاحب نے جنازےکے مجمع کو مخاطب ہو کر کہا کہ ایک بندہ مومن کی جان بہت زیادہ قیمتی ہے۔ اس کی بڑی سے بڑی قیمت کوئی دنیا کا غلام سرمایہ دار ادا نہی کر سکتا۔ لیکن شہید اس حقیقت کو پا گیا تھا کہ اس کی جان کی اصل قیمت وہی دے سکتا ہے جس نے یہ جان دی ہوئی ہے۔ اس بڑی حقیقت کو شہید کی اہلیہ محترمہ نے بھی پا لیا تھا۔ اور اپنے شوہر کے ساتھ ہی جنت کے ابدی قیام کی طرف گامزن ہو گئیں۔
آیندہ دنوں میں معلوم نہیں شہید کے مقدس لہو سے سیراب ہونے والی مٹی پر مشترکہ آپریشن کیا جاتا ہے کہ سفارتی سطح پر احتجاج یا پھر لاکھوں لوگوں کا امن مارچ ۔ شہید کے قافلے سے منسلک ان کے ہمراہی ان شاءاللہ ضرور خدا کی آخری شریعت کی مکمل حاکمیت والی ریاست اور امت  کی سرحدوں کو کفر کی یلغار سے محفوظ بنانے کے لیے اپنا آج قربان کرتے رہیں گے۔ ہم جیسے نرم بچھونوں  پر سونے والے اور آرام کدوں میں بیٹھ کر امت کی سربلندی کے خواب دیکھنے والے دعا گو ہیں:

          رحمت  دا  مینہہ  پا  خدایا   ٗ  باغ  سُکا  کر  ہریا 
          بوٹا آس اُمید  مری  دا  کردے  میوے  بھریا
           مِٹّھا میوہ بخش اجیہا  قدرت دی گھت شیری       
          جو کھاوے ٗ روگ اُسدا جاوےٗ دور ہووَے دلگیری
          سدا بہار دئیں اِس باغے ٗ کدے خزاں نہ آوے            
           ہووَن  فیض  ہزاراں  تائیںٗ  ہر بُھکّا  پھل  کھاوے
                                                           (حضرت میاں محمد بخش ؒ)

(یہ تحریر ماہنامہ خطیب لاہور کے اکتوبر 2012 کے شمارے میں شائع ہو چکی ہے)

No comments:

Post a Comment