Friday, February 14, 2014

ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں

ہم تو رسم محبت کو عام کرتے ہیں 


احمد اویس 
              ستیاناس ہو مغربی تہذیب کا۔ اچھے بھلے لفظ کو اختلاف کی بھینٹ چڑھا دیا۔ معاملہ صرف پھول بیچنے والوں کا ہوتا یا غباروں والوں کے روزگار کا۔ تو سبھی لوگ غریبوں کی ہمدردی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ کچھ ایسا ہی چند سال پہلے ہوا جب عدالت کی جانب سے پتنگ بازی پہ پابندی لگنے کے خلاف غریب لوگ مظاہرے کیا کرتے تھے کہ ہزاروں غریبوں کا چولہا اسی خونی کھیل سے وابستہ ہے، اب کیا کریں زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ہمارا کاروبار تو مت چھینو،،،، ہمارے بچے فاقوں مریں گے۔ یہ اور بات کہ پتنگ بازی سے ہونی والی اموات تو دیکھنے سننے کو مل جاتی ہیں مگر اس پر پابندی سے خدا کا شکر کسی کی جان نہیں گئی۔۔۔۔ 
         
             مغرب کی مادر پدر آزاد تہذیب نے نا صرف الفاظ کے لغوی معنی بدل دئیے ہیں بلکہ ظاہری طور پر ان کا مفہوم بھی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اب یہی  محبت جیسا شیریں لفظ اب ذرا عام استعمال کر کے تو دیکھیں۔ فورا دائیں بائیں والے چوکنے ہو جائیں گے۔ اگر آپ کی ظاہر بین نگاہ زیادہ دور اندیش نہیں تو الٹا یہ نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ کہاں وہ وقت تھا کہ شعرا حضرات پند و نصائح کی بات اس کے  پیرائے میں بیان کرتے تھے کہ بات میں بوجھل پن نہ رہے۔ سبق آموز لوک داستانیں اسی کے گرد گھومتی تھیں۔ صوفیا کرام خدا کی ابدی اور سچی محبت کو سمجھانے کے لیے یہی مثالیں دیا کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے بھی کبھی کہا تھا کہ 
بھلا نبھے گی  تری ہم سے کیونکر اے واعظ 
کہ ہم تو  رسم  محبت کو  عام  کرتے   ہیں 

              ویسے کچھ نڈر اور بے باک قسم کے لوگ تو محبت کا لفظ بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ کچھ زیادہ ہی کر لیتے ہیں۔ نتائج سے بے پرواہ ہو کر۔ ان کے نزدیک سچ تو یہ ہے کہ محبت کرنی تو ڈرنا کیسا۔۔۔ انہی لوگوں کے دم سے دنیا کی رنگینی برقرار ہے اور غریبوں کا چولہا جل رہا ہے۔  ایک دفعہ کسی رشتہ دار کا حج سے واپسی پر صبح کے وقت استقبال کرنے ایرپورٹ جا رہا تھا تو باوجود کوشش کے کوئی پھول والا نہیں ملا۔ آج جس وقت گوالے دودھ لے کر شہر پہنچتے ہیں اس وقت میں نے دیکھا کہ  پھولوں کی دکانیں سجی ہوئی ہیں۔ مزرع شب کے خوشہ چینوں کے لئے شاید ساری رات ہی  کھلی رہی ہوں۔۔۔ 
ادھر سرحد پار سے خبر آئی کہ بال ٹھاکرے کی تنظیم نے اس مغربی تہوار کے خلاف ملک بھر میں جگہ جگہ مظاہرے کیے۔ محبت کی علامتوں کو سر عام نذر آتش کیا گیا۔ کئی جگہوں پر ان کے کارکنوں نے اسیران محبت کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر  ڈنڈوں سے تواضع کے علاوہ ایک دوسرے سے کان بھی کھینچوائے۔ زبردستی پھولوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کر کے قیمتی پھول ضائع کر دئیے۔  ان کا موقف تھا کہ یہ انڈین کلچر  اور خاندانی نظام کے خلاف ہے۔ ممکن ہے کہ اس جسارت پر فوج ان کے مضبوط ٹھکانے ممبئی پر بمباری ہی کر دے۔  
                جب ہمارے اوپر الزام دھرا جاتا ہے کہ یہ تو ہیں ہی محبت کے دشمن۔۔۔ ہم فورا اپنا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نہیں نہیں ہم محبت کے دشمن  نہیں بلکہ ہمارے نزدیک محبت سارا سال کرنی چاہیے نہ کہ صرف ایک دن۔ بھلا یہ کیسی محبت ہے کہ جو بس ایک دن میں ہی ہو کر ختم ہو جاتی ہو۔۔۔ لو جی پھر اور کیا چاہیے۔۔۔ آپ سے تو ایک دن محبت کا برداشت نہیں ہوتا۔ سارا سال کیسے برداشت کریں گے؟؟ 

                ارے نہیں جناب آپ ہی تو غلط سمجھے ہیں۔ ہم سے زیادہ محبت کا پرچار کرنے والا کون ہے۔ ہم تو سچی محبت کا درس دیتے ہیں۔ وہ محبت جو ایک بیٹا اپنی ماں سے کرتا ہے۔ جو بہن بھائیوں میں ہوتی ہے۔ جو ایک خاندان کو جوڑ کر رکھتی ہے۔ جو دوستی کے رشتہ کی مٹھاس بڑھاتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر انسان کو اس کے محبوب رب سے آشنا کرتی ہے۔ بلکہ اگر یہ محبت نہ ہو تو  
بجھی عشق کی آگ، اندھیر ہے 
مسلمان نہیں، راکھ کا ڈھیر ہے 


No comments:

Post a Comment